حیات طیب رحمہ اللہ تعالی جلد 1 |
یات طیب |
|
’’اندریں ثبوت اگر انبیاء علیہم السلام کسی چیز کا استحسان ظاہر فرمائیں تو دانش کا تقاضا یہ ہے کہ اسے قبول کیا جائے اور اگر کسی چیز کو پسندیدہ نگاہوں سے دیکھ کر خود اپنا اُسوہ بنا لیں تو منہاجِ نبوت کے عقیدت مندوں کا خوش گوار وظیفہ یہی ہونا چاہئے کہ وہ بھی اُسے دستور العمل بنا لیں اور اگر یہ مقدس طبقہ کسی چیز کے بارے میں ترغیبی کلمات بھی استعمال فرمائے، یعنی دوسروں کے حق میں بھی اُسے پسند کرے تب تو وہ حرزِ جان بنا لینے کے قابل ہے اور اگر اس سے آگے ہو کر کسی چیز کو وہ اپنی امت کے حق میں ضروری قرار دے تو اس کے لئے تو سر تا پا تعمیل اور اس کے خلاف سر تا پا گریز بن جانا چاہئے ۔ظاہر ہے کسی چیز کی مشروعیت یا خدائی دستور کے جزو ہونے کی یہی چار صورتیں ہوسکتی ہیں کہ وہ بذاتِ خود مستحسن کہی جائے یا اسوۂ پیغمبر ہو یا اس کے بارے میں ترغیبی عنوان اختیار کیے گئے ہوں کہ وہ خود بھی اچھی بتائی گئی ہو، اسوۂ پیغمبر بھی ہو، اس کی ترغیب بھی دی گئی ہو اور اس کا امر بھی کیا گیا ہو۔ تو اس سے زیادہ اس کے شرعی ہونے کی اور کیا دلیل ہو سکتی ہے؟ ڈاڑھی کے مسئلہ میں حسن اتفاق سے یہ چاروں وجوہ ِمشروعیت جمع ہیں ‘‘۔(۸۸)فہم ِ حدیث کے بغیر فہم ِقرآن ممکن نہیں کلامِ رسول کو سمجھے بغیر کلام اللہ کو سمجھنا مشکل ہے، یہ موضوع انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ لکھنے والے جب اس موضوع پر قلم اٹھاتے ہیں تو موضوع کی اہمیت کا حق صرف اس قدر سمجھتے ہیں کہ اس کو پھیلا کر بیان کیا جائے لیکن کسی موضوع کی اہمیت کا تقاضہ تو یہ ہوتا ہے کہ اس کو سمجھا کر بیان کیا جائے خواہ مختصر ہی طور پر کیوں نہ ہو، اسی اصل کی روشنی میں حکیم الاسلامؒ کے اندازِ بیان پر نگاہ ڈالئے کہ اکثر مقامات پر اس کی پرشوکت مثالیں اور پرشکوہ نمونے مل جائیں گے۔ ذیل کا مضمون اس کا شاہد عدل ہے۔ ’’اسی کے ساتھ یہ حقیقت بھی غور کرنے کے قابل ہے کہ پیغمبر کی زبان سے ہر کلامِ ہدایت کسی نہ کسی کیفیت سے صادر ہوتا ہے، یہ کیفیات ظاہر ہے کہ نفسانی نہیں ہوتیں ، جو ہر کس و ناکس پر طاری ہو سکتی ہیں ، بلکہ روحانی و رحمانی ہوتی ہیں ، اسلئے وہ کلام درحقیقت اسی متعلقہ کیفیت میں ڈوبا ہوا اسی سے سرزد ہوتا ہے اور اسی کا مظہر ہوتا ہے گویا وہ کیفیت ہی الفاظ کی صورت میں جلوہ گر ہوتی ہے پھر اس کیفیت سے یہ کلام چل کر اسی کیفیت کی طرف لوٹتا بھی ہے، جس سے یہ کیفیت قلب میں اور زیادہ مستحکم ہو کر جڑیں پکڑتی ہے گویا اس کلام کے اول و آخر رحمانی اور روحانی کیفیت چھائی رہتی ہے۔ غور کیاجائے تو اس کلام کی مراد، درحقیقت اسی کیفیت میں چھپی رہتی ہے، کیوں کہ کلام کسی نہ کسی