حیات طیب رحمہ اللہ تعالی جلد 1 |
یات طیب |
|
کے اس اقدام کو شرعاً ناجائز باور کرانا چاہا ہے، سو ان احادیث کا جواب وہ احادیث ہیں جن کی رو سے امیر کے غیر شرعی یا مخالف ِ شریعت اقدامات سے اس کی سمع و طاعت اُٹھ جاتی ہے اور معصیت ِخالق میں طاعت ِ مخلوق باقی نہیں رہتی، جس کا حاصل یہ نکلے گا کہ جہاں تک امیر کے ذاتی فسق و فجور کا تعلق ہے وہ کتنا بھی شدید ہو ،خروج کی شدید ممانعت ہے اور جہاں تک اس کے متعدی فسق و فجور کا تعلق ہے، جس سے نظامِ دیانت مختل ہونے لگے تو امیر کی مخالفت نہ صرف جائز بلکہ استطاعت کی حد تک ضروری ہے۔ اس لئے ممانعت ِخلاف کی حدیثیں امیر کے ذاتی فسق و فجور پر محمول ہوں گی اور اجازتِ خلاف کی حدیثیں امیر کے متعدی اور جماعتی فسق و فجور پر، جس سے روایات میں کوئی تعارض نہیں رہتا اور نہ ہی حضرت امام ہمام کا یہ اقدام ان میں سے کسی ایک روایت کے خلاف ٹھہرتا ہے، کہ ان کے اس فعل پر ناجائز یا نامناسب ہونے کی تہمت لگائی جائے، جو ڈوزی کے منہ میں گھس کر عباسی صاحب نے ان پر لگائی ہے۔ اب خلاصۂ بحث یہ نکل آیا کہ یزید کی شنیع حرکات اور اس کے فاسقانہ افعال نصوصِ فقہیہ اور نصوصِ تاریخیہ سے واضح ہیں ۔ جن کی رو سے فسقِ یزید کا مسئلہ محض تاریخی نظریہ نہیں رہتا جسے مؤرخین نے محض تاریخی ریسرچ کے طور پر قلم بند کر لیا ہو،بلکہ حدیث و فقہ کی رو سے ایک عقیدہ ثابت ہوتا ہے، جس کی بنیادیں کتاب و سنت میں موجود اور ان کی تفصیلات علماء اور اتقیاء کے کلاموں میں محفوظ ہیں ۔ اسی لئے اسے نقل کرنے پر حکم لگانے اور اسے ثابت کرنے کیلئے محض مؤرخ نہیں بلکہ محدثین فقہاء اور متکلمین آگے آئے اور انھوں نے اس مسئلہ پر کتاب و سنت کے اشارات اور فقہ و کلام کی تصریحات سے احکام مرتب کیے جس سے اس کے عقیدہ ہونے کی شان نمایاں ہوئی‘‘۔(۹۴)سلسلۂ تشبہ کے درجات حکیم الاسلامؒ کی معرکۃ الآراء کتاب اسلامی تحریک و تمدن میں تشبّہ بالاغیار یا تشبّہ بالکفار پر بھی بحث آئی ہے اور اس سلسلہ میں تسلی بخش گفتگو آپ کی ایک دوسری کتاب ’’التشبّہ فی الاسلام‘‘ میں کی گئی ہے۔ اول الذکر کتاب کا اقتباس ملاحظہ فرمائیے: ’’یہاں سے سلسلۂ تشبہ میں دو درجے پیدا ہوتے ہیں ،ایک درجہ تحصیلِ فضائل کا ہے جو تشبہ بالانبیاء سے حاصل ہوتا ہے اور دوسرا درجہ تخلیہ ٔ رذائل کا ہے جو ترکِ تشبہ بالکفار سے پیدا ہوتا ہے۔ گویا پہلا سلسلہ مامورات کا ہے اور دوسرا محظوراتِ شرعیہ کا، یا پہلا حصہ ماذونات کا ہے اور دوسرا ممنوعات کا ۔ پھر ان دونوں درجوں میں دو دو مرتبے پیدا ہوتے ہیں ، عزیمت ؔاور رخصتؔ۔