حیات طیب رحمہ اللہ تعالی جلد 1 |
یات طیب |
|
مجھے اس کی تصویر نظرآتے تھے، حلم، بردباری اور سب سے بڑھ کر یہ کہ اپنے چھوٹوں کی دلداری، وہ کوئی بات ایسی نہ کرتے تھے نہ کہتے تھے جس سے کسی کی دل شکنی ہوتی ہو۔‘‘ انیس ٹھیس نہ لگ جائے آبگینوں کو مولانا انظر شاہ صاحبؒ رقمطرازہیں کہ: ’’نفاست ان کی فطرت میں کوٹ کوٹ کر بھر گئی تھی، خود نفیس، پوشاک نفیس، گفتگو نفیس، وعظ نفیس، تحریر نفیس، گویا کہ سراپا نفاست، کھانے میں پسندیدہ امر یہ تھا کہ دسترخوان لگادیا جائے، انہیں جو چیز پسند ہوگی خود ہی اٹھالیں گے، اگر میزبان زبردستی کھلانا چاہتا ہے تو قدرے ترش ہو کر فرماتے کہ بھائی کھانے کا تعلق رغبت سے ہے ترغیب سے نہیں ۔ ایک دعوت میں مولانا فخرالحسن صاحب مرحوم بار بار رائتہ اٹھا کر پیش کرتے اور کہتے کہ :’’رائتہ، فرمایا کہ جی ہاں رأیتہٗ، غالباً رائتہ مرغوب نہ تھا۔‘‘(۳۶)لقب حکیم الاسلامؒ کی معنویت لفظ حکیم الاسلامؒ نے ٹھونس ٹھانس اور کھینچ تان کے ناروا سلوک سے نیم دم ہو کر امام غزالیؒ کے بعد اگر کسی موزوں شخصیت کے نام کے سابقہ نے دم لیا یقین کیجئے کہ وہ حضرت مولانا محمد طیب صاحبؒ ہی تھے۔ اس پر بھی حاسدین نے یہ احمقانہ اعتراض جڑ دیا کہ کیا اسلام بیمار ہے کہ ’’حکیم الاسلام‘‘ ٹھہرے، یاللاسف مدت العمر پڑھتے پڑھاتے گزری، کیا اتنا ہی پڑھا اور پڑھایا کہ حکیم کے معنی بقول حضرت مولانا سید محمد انظر شاہ صاحب کشمیریؒ ’’حکیم گل بنفشہ نویس و مصروف ہو الشافی‘‘ ہی سمجھا کئے۔ اس کے کوئی اور معنی ہی نہیں ، بایں عقل و دانش بباید گریخت۔ ہم تویہ سمجھتے ہیں کہ محدثین عظام کے حالات میں ایک جملہ تواتر کے ساتھ نقل ہوتا آیا ہے، کان محسودا بین الناسبس حکیم الاسلامؒ اپنے عہد میں اسی کا مصداق تھے اور سمجھنے والے سمجھ سکتے ہیں کہ یہ جملہ سیاق مدح میں بیان ہوا ہے، جس کا صاف صاف مطلب یہی ہے کہ وہ صاحب کمال اور اپنی علمی عظمتوں کی بنا پر مشہور بین العوام والخواص تھے اور یہی وہ چیز ہے جو حریفوں کے لئے وجہ حسد بنی ہے۔ اعتراض کرنے والے اپنے زعم میں نہ جانے کیا کیا تھے؟ حقیقت یہ ہے کہ وہ حاسدین کے سوا کچھ بھی نہ تھے، جو حکیم الاسلامؒ کے پورے عہد زریں میں ہزار نوازشوں کے باوجود وہی کاروبار کرتے رہے جس کا حاصل جمع حسد۔