حیات طیب رحمہ اللہ تعالی جلد 1 |
یات طیب |
|
کروں ، جنہوں نے مشرق و مغرب کے دور دراز سفروں کی صعوبتیں جھیل کر محض اللہ کے لئے اس بین الملّی اجتماع میں شرکت فرمائی۔ بلاشبہ یہ اسلام ہی کی جامعیت اور اجتماعیت کا کرشمہ ہے کہ ہم جیسے غرباء ان کبرائے قوم اور عظمائے ممالک کو اپنے درمیان دیکھ رہے ہیں اور ان کے پُراز مودت و اخوت چہروں کی چمک دمک سے اپنی آنکھوں کا نور اور دلوں کا سرور بڑھا رہے ہیں جس میں علماء و عرفاء بھی ہیں اور اصحابِ حدیث و تفسیر بھی، اربابِ فقہ و اصول بھی ہیں اور دانایان فلسفہ و کلام بھی، علوم شریعت کے شیوخ بھی ہیں اور علومِ جدیدہ کے دانشور بھی، عمائدین ملک و ملت بھی ہیں اور زعماء ممالک و اقوام بھی جن میں سے ایک ایک فرد ایک مستقل یونیورسٹی کا درجہ رکھتا ہے اور اپنی مؤقر خدمات سے انسانیت کے لئے رہنما تسلیم کیا گیا ہے۔ ہم حیران ہیں کہ کس زبان سے اور کن الفاظ میں ان جلیل القدر ہستیوں کا شکریہ اد اکریں جس کہ الفاظ تو جذبۂ امتنان و منت پذیری سے اوپر چڑھنا چاہتے ہیں لیکن ان ہستیوں کی بلند مکانی تک صدہزار کوششوں کے باوجود نہیں پہنچ سکتے۔ دامانِ نگہ و تنگ گلِ حسن تو بسیار ہم ز بان و بیان بلکہ زمین و آسمان سے بھی زیادہ وسعت رکھنے والے اور ایمانی تقاضوں اور روح اسلامی سے مملو پر خلوص جذباتِ تشکر کو دعائیہ تعبیر میں آپ حضرات کا پرتپاک خیر مقدم کرتے ہوئے یپش کرتے ہیں ہے کہ: ’’جزاکم اللّٰہ فی الدارین خیرا‘‘ و ابقاکم فی عز علی الدوام‘‘ آمیندیوبند ایک تاریخی اور مرکزی بستی حضراتِ محترم! یہ بستی (دیوبند) جس میں آپ سب حضرات جمع ہیں ، بہت پرانی اور قدیم الایام بستی ہے، تاریخوں سے تقریباًڈھائی تین ہزار سال تک اس کی آبادکاری کا پتہ چلتا ہے، قدیم زمانہ سے یہ بستی برادرانِ وطن کی ایک زبردست تیرتھ گاہ ہونے کی وجہ سے (جو ’’دیوی کنڈ‘‘کے نام سے معروف ہے اور اس پر آج بھی سالانہ میلہ لگتا ہے) مرکزیت کی حامل ہے، اس دیوی کنڈ ہی کے نام پر اس بستی کا قدیم نام ’’دیبی بن‘‘ تھا جو کثرت استعمال سے ’’دیوبند‘‘ کے نام سے مشہور ہوگیا۔ اس چھوٹی سی بستی میں جس میں مسلمانوں کی تعداد و مساجد شاہی زمانوں کی یادگاریں ہیں ، آدینی مسجد (یعنی قدیم جامع مسجد) پانچ سو سال اور ایک روایت کے مطابق آٹھ سو سال پرانی ہے، جس کے