حیات طیب رحمہ اللہ تعالی جلد 1 |
یات طیب |
|
جناب عتیق احمد صدیقی ،شعبۂ اردو مسلم یو نیورسٹی علی گڑھ : بھائی سالم صاحب السلام علیکم کل اخبارسے اس سانحہ عظیم کی اطلاع ملی جو آپ کے ، ہمارے لیے ہی نہیں ،بلکہ پو رے عالم اسلام کے لیے ایک بڑا سانحہ ہے ، اگر چہ قبلہؒ کافی دن سے علیل تھے ، لیکن اس صورت حال کے لیے دل و دماغ آمادہ نہیں تھے ، دل چاہتا تھا کہ ان کا سایہ ہم لو گوں کے سروں پرتادیررہے اور ان کے فیوض و بر کا ت سے مستفید ہو تے رہیں ، قضا و قدر کے فیصلوں کے سامنے کس کو مجال دم زدن ہے ، لکھی ہو ئی ساعت ٹل نہیں سکتی ، لیکن گذشتہ دوتین سال کے حالات نے مر حوم کو جس کرب میں مبتلا رکھا ، اس کا بھی ان کی شخصیت پر برا اثر پڑا اور جس تحمل کے ساتھ وہ ان حالات سے عہدہ بر آ ہو تے رہے وہ ان کی شخصیت کی عظمت کی دلیل ہے، ان کا تقدس ، ان کی علمیت ، ان کی علمی او ردینی خدمات ، ان کا محبت و رافت کا سلوک، ان کی صلۂ رحمی اور ایسی ہی متعدد صفات حمیدہ ، ان کے لیے جن در جات عالیہ کی ضمانت بنے ہو ں گے ، ہم تو ان کا تصور بھی نہیں کر سکتے ، جزا ہم عند ربہم جنۃ الخ کی مصداق ایسے ہی حضرات کی شخصیات تو ہو تی ہیں ، گھر میں یہ خبر معلوم ہو ئی تو پہلا جملہ یہ تھا کہ ’’دیو بند کی آخری بزرگ ذات بھی رخصت ہو ئی ‘‘ سچ یہ ہے کہ ان کے لیے دعا کر نے کو زبان نہیں اٹھتی کہ چھوٹا منہ بڑی بات معلوم ہو تی ہے ، لیکن اس سعادت میں شامل ہو نے کے لیے اپنے رب سے دعا کر تا ہوں کہ انہیں ابرار کبار میں شامل فرمائے ۔ خاندان کی ، دار العلوم کی ، اس مشن کی جو ساری زندگی مر حوم کو عزیز رہا ، سا ری ذمہ داریاں اب آپ پر ہیں ، خدا کر ے آپ ان کو بوجوہ احسن پو را کریں ، ان کو پو را کرنے کے لیے جس تحمل اور تدبر کی ضرورت ہے ، اللہ تعالیٰ نے آپ کو اس سے نوازا ہے، اب تک مرحوم کے سایۂ عاطفت میں ان سے کام لیتے رہے ، اب خود پو ری ذمہ داری کے ساتھ ان کو روبہ کار لا نا ہے ، الٰہ آ پ کو استقلال عطا فر مائے ۔ ……v……