حیات طیب رحمہ اللہ تعالی جلد 1 |
یات طیب |
|
سپاس نامہ یہ سپاس نامہ ۲۲؍جون ۱۹۶۲ء کو دارالعلوم حقانیہ اکوڑہ خٹک (مغربی پاکستان) میں حضرت حکیم الاسلامؒکی خدمت اقدس میں پیش کیا گیا۔ ہم سب دربارِ خداوندی میں باعجز و انکسار شکر گذار ہیں کہ ہمارے مدرسہ کے مختصر نمایاں دور حیات میں تیسرا موقعہ ہے کہ حضرتِ والا کے وجود گرامی کو ہم خدام اپنے درمیان باثمین و برکات موجود پارہے ہیں ۔ چند روز قبل جب کہ حضرت والا کی جانب سے تشریف آوری کی اطلاع ملی تو تمام متعلقین و متوسلین اور اہالیانِ شہر خدا شکر بجا لائے۔ صبا پیام رسانید و شادماں گشتم طلوعِ صبح سعادت در انتظار من است اس مدرسہ کاذرہ ذرہ اور خدام و اراکین اس نعمت غیرمترقبہ پر تحدیث بالنعمۃ جس قدر نازاں و شاداں ہوں وہ بجا ہے۔ مخدومِ محترم! آپ کے کمالات و مراتب اور خصائص و امتیازات چار دانگ عالم میں روشن ہیں جن پر روشنی ڈالنا تحصیل حاصل ہے۔ وما انتم ممن یھنی بمنصب ولکن بکم حقا تھنّی المناصبا حضرت والا!اس مختصر مگر والہانہ خوش آمدید کے بعد اس حقیقت کے اظہار کی ضرورت نہیں کہ اس مدرسہ کو حضرت والا اور دوسرے اکابر سے کس حد تک نسبت ہے۔ دراصل اس مدرسہ کی تاسیس حضرت اکابر دیوبند کی روحانی توجہات و کرامات کا ایک ادنیٰ سا کرشمہ تھی جن حالات میں حجۃ الاسلام قاسم العلوم والخیرات حضرت نانوتویؒ نے دیوبند کی ایک مسجد میں اس دینی ادارہ کا آغاز کیا جو بلاشبہ آج اپنی عظیم خدمات اور فیوض و کرامات کے لحاظ سے پورے کرۂ ارض میں اسلامی اقدار و نظریات کاعظیم ترین مرکز ’’دارالعلوم دیوبند‘‘ کے نام سے مشہور ہے، اسی قسم کے حالات میں اپنے بزرگوں کے اسوۂ حسنہ کو سامنے رکھ کر ان کی دعائوں کے سہارے دارالعلوم دیوبند کے طرز پر خدا تعالیٰ کے دین متین کی اشاعت و حفاظت کا یہ مضبوط و مستحکم قلعہ معرض وجود میں آیا۔ اپنی زندگی کے اس مختصر وقفے میں اس مدرسہ نے ملک و ملت کی جو خدمات انجام دیں ان کا مختصر جائزہ سالانہ کارگزاری کی رپورٹ سے لیا جاسکتا ہے اور مقام شکر و امتنان ہے کہ ملک کے دور دراز حصوں میں بھی کوئی ایساگوشہ نہ ہوگا جہاں اس درسگاہ کا فیض یافتہ اشاعت دین میں مصروف نہ ہو۔