حیات طیب رحمہ اللہ تعالی جلد 1 |
یات طیب |
|
خود پہنچ کر امانت سپرد کردیں ۔ نماز، روزہ، زکوٰۃ، حج کی ادائیگی میں ان کا غیرمعمولی شغف انتہائی طور پر حیرت انگیز تھا، مغرب کے بعد چند نوافل میں قرآن کریم کے ایک دو پاروں کی تلاوت ان کا معمول تھا اور اس معمول کو وہ ہوائی جہاز،ریل، ہوائی اڈوں اور ریلوے اسٹیشنوں پر بھی پورا فرماتے تھے، مجلس کے اوقات متعین تھے، اس سے زائد وقت مجلس میں صرف نہیں فرماتے تھے، تحریر و تصنیف کی دنیا الگ تھی اور اس دنیا سے بھی ان کی وابستگی دائمی تھی، تقریر کی خوبیاں اور کمالات ان پر نازل ہوتی تھیں ، سوتے سوتے بھی تقریر فرماتے تھے اور نیند کی یہ تقریریں بھی انتہائی مربوط، موثر اور منطقی لحاظ سے مکمل ہوتی تھیں ، ان کی نیند کی تقریروں کی بہت سی کیسٹ لوگوں کے پاس موجود ہیں جنہیں سن کر قطعاً اس کا اندازہ نہیں ہوتا کہ یہ بیداری کی تقریریں نہیں بلکہ نیند کی تقریریں ہیں ، گھنٹہ گھنٹہ بھر کی پوری تقریر بلند آواز اپنے مخصوص لہجہ میں سوتے سوتے فرمادیتے تھے اور خود انہیں کوئی احساس نہ ہوتا کہ وہ کیا کر رہے ہیں ۔‘‘ذوقِ عبادت و ریاضت جبینِ مبارک پر سجدہ کے نشانات،ذوق عبادت، شوق ریاضت کے غماز،چہرے کی نورانیت، نالۂ نیم شبی وآگاہ سحر گاہی کی علامت،آواز میں سوز و گداز،خوف و خشیت کا آئینہ دار،معاملات میں احتیاط، تقویٰ وطہارت کی دلیل، خیر خواہانہ جذبات،عبادت بے ریا کا پتہ دیتے،انتظام و انصرام و معمولات ،لکھنے پڑھنے کے مشاغل اور اسفار کی مشغولیات کے ساتھ شب بیداری،ذکرو تلاوت کے معمولات سب سے بڑھ چڑھ کر۔ حضرت مولانا نور عالم خلیل امینی رقمطرازہیں : ’’وہ عبادت و ریاضت کے رسیا تھے ، لگتا تھا کہ واقعی اسی کے لئے مخلوق ہوئے ہیں ، سنن و نوافل اور قیام باللیل کی اسفار میں بھی ایسی پابندی تھی کہ جواں سال حوصلہ مند صالح جوانوں کی ہمت بھی اُس کے سامنے جواب دے دیتی تھی، مغرب کے بعد نوافل اور وقتِ تہجد کی نمازوں میں کئی کئی پارہ تلاوت کا معمول رہا، جس میں موت تک کبھی خلل نہیں پڑا۔ وہ عبادت و تلاوت میں انہماک کے حوالے سے بھی اپنے اسلاف کے امانت دار وارث تھے۔ دارالعلوم دیوبند جیسے عظیم ادارے کے اتنے طویل عرصے تک قیادت کے لئے جو باطنی جوہر، قلبی کیفیات اور روحانی و ارادت درکار تھیں اُن کے معیار پرنہ صرف وہ مکمل طور پر اترتے تھے، بلکہ پوری جماعت کے لئے اس حوالے سے بھی قائد و داعی تھے۔ میرا عقیدہ ہے کہ اس ادارے کی اس طویل دورانئے تک سربراہی کے لئے خدائے حکیم نے ہی اُنہیں بنایا اور منتخب کیا تھا۔ تاریخ