حیات طیب رحمہ اللہ تعالی جلد 1 |
یات طیب |
|
نہیں بنتی جب تک کہ اس میں ہمہ گیری اور عالمیت نہ ہو، اس لئے آج کی سیاست ہے تو بین الاقوامی، تمدن و معاشرت ہے تو بین الاقوامی، تجارت و صنعت ہے تو بین الاقوامی، صلح و جنگ ہے تو بین الاقوامی، حتی کہ کھیل کود بھی ہیں تو بین الاقوامی۔ اس لئے قدرتی طور پر طبائع ہیں یہ جذبہ آنا ہی چاہئے کہ دین کی دعوت اور اصلاحی آواز ہو تو وہ بھی بین الاقوامی ہی ہو، بالخصوص جبکہ اسلام خود ہی اپنی ذات سے بین الاقوامی بن کر دنیا میں آیا ہے جو ساری دنیا کی اقوام کے لئے پیغام ہے بلکہ اس نے دنیا میں بین الاقوامیت کا پرداز ڈالا ہے، اس لئے ہم یہ سمجھتے ہیں کہ ’’لیظھرہٗ علی الدین کلہ‘‘ کا وعدہ پورا ہونے کا وقت آچکا ہے اور وہ یہی وقت ہے کہ جس میں فطرت اسلام پکار کر کہہ رہی ہے کہ یہ بین الاقوامی دین اور اس کے انسانی صلاح و فلاح کے ضامن بین الاقوامی مقاصد اور اس کی ہمہ گیر ثقافت بھی عالمی رنگ سے دنیا کے سامنے آئے۔ توحید و سنت کی حامل جماعت تیار کرنے کے بعد حالاتِ وقت کے پیش نظر جامعہ دارالعلوم کی یہ خواہش بجا اور برمحل ہے کہ اس نئی صدی میں امت مسلمہ اسلام کے عالمی مقاصد کو باہمی تعاون سے آگے بڑھائے اور جو کام اب تک شخصی یا انفرادی یا تن تنہا اداری قوتوں سے ہواہے اسے اجتماعی بنائیں تاکہ پوری دنیا اسلام کے صحیح خدوخال سے واقف ہو۔عالمی دعوت کے لئے تعلیمی جامعات میں ارتباط کی ضرورت ہمارے نزدیک قابل غور ضروری مسائل میں سب سے زیادہ اہم مسئلہ عالمی دعوت اسلام اور مسلمانوں کے بگڑے ہوئے معاشرے کو درست کرنا ہے اور یہ دیکھنا ہے کہ اس میں کن کن راستوں سے بگاڑ آرہا ہے اور اس کے انسداد کی کیا صورت ہے؟ عموماً بے پڑھے لوگوں کا بگاڑ رسوم و رواجات اور کورانہ تقلید سے نشو و نما پارہا ہے، جس کا انسداد تعلیم ہی سے ممکن ہے، پڑھے لکھوں کا بگاڑ شکوک و شبہات اور تخیلات سے پرورش پاتا ہے، جس کا انسداد تبلیغی ذریعہ سے ممکن ہے اور برسرِ اقتدار طبقوں کا بگاڑ جاہ پسندی اور ہوائے نفسانی سے بھرا ہوا ہے جس کا حل ان سے ہمدردانہ رابطہ کرکے انہیں راہ پر لگانا ہے اس لئے ان سب کے لئے نفسیات شناس ایسے مخلص فکری مصلحوں کی ضرورت ہے جو ہر ملک کے برسراقتدار طبقہ کو اس کے اقتدار کی برقراری کا یقین دلا کر ان کی شخصی اصلاح کے ساتھ ان عمومی مقاصد دعوت کے لئے انہیں آمادہ بھی کرسکیں اور ان سے کام بھی لے سکیں ۔