حیات طیب رحمہ اللہ تعالی جلد 1 |
یات طیب |
|
حضرت حسین ؓ پر کسی الزام کی گنجائش نہیں شہادتِ حسینؓ کے واقعہ میں بہت سے حقائق اور بہت سے پہلو شرعی نقطۂ نظر سے بڑے نازک ہیں ۔ بعض حضرات نے انتہائی غلو سے کام لیا ہے۔ بعض نے بہت ہلکا کرنے کی کوشش کی جب کہ ایک تیسری جماعت نے کسی کو بھی نہیں بخشا۔ یہ شہادت حسین سے بھی بڑا ظلم ہے۔ اس موضوع پر حکیم الاسلامؒ کی یہ عالمانہ بحث ملاحظہ فرمائیے: ’’بہر حال حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے اس اقدام پر جو بمقابلہ یزید مدینہ سے کربلا کے میدان تک پھیلا ہوا ہے، تاریخ، فقہ، حدیث ،کلام اور عقل کے راستہ سے کسی الزام و اتہام کی گنجائش نہیں نکلتی۔ (۱) کیوں کہ اول تو یزید کی بیعت ہی اجماعی نہ تھی ،متعدد گروہوں ، خطوں اور منطقوں نے ابتداء ہی سے اسے قبول نہ کیا تھا۔ جس میں حضرت حسین رضی اللہ عنہ بھی شامل ہیں ، اس لئے ان پر یزید کی اطاعت ہی واجب نہ تھی کہ خروج و بغاوت کا سوال پیدا ہو۔ خروج و بغاوت کی مذمت اور ممانعت التزامِ بیعت کے بعد ہے اور جب کہ حضرت حسین رضی اللہ عنہ اور ان کے دوسرے بہت سے ہم خیال لوگوں نے یزید کی بیعت ہی قبول نہ کی تھی تو ان پر اس کی اطاعت ہی واجب نہ تھی کہ وہ خروج و بغاوت کا محل قرار پائیں اور اس کی رُو سے ان پر معاذ اللہ کسی عصیان کا اتہام لگایا جائے۔ (۲) اور پھر بھی اگر اس اقدام کو خروج و بغاوت ہی فرض کر لیا جائے تو جب کہ وہ امیر کے متعدی فسق و فجور، اس کی اہانت ِ شیوخ و کبرا ء اور امارتِ صبیان و سفہاء اور ان کی اطاعت کے سبب اضاعت ِدین ہونے کی بناء پر تھی، جن کے ہوتے ہوئے سمع و طاعت ِامیر باقی نہیں رہتی، تب بھی ان پر خروج و بغاوت کا الزام نہیں آسکتا کہ یہ اصلاحی قدم تھا، جو ضروری تھا نہ کہ باغیانہ اقدام۔ (۳) لیکن اگر خواہی نہ خواہی اسے خروج و بغاوت ہی کا لقب دیا جائے تو حسب ِ تصریح حضرت شاہ ولی اللہ دہلویؒ قرنِ اول کے باغی گروہ کا حکم مجتہد ِ مخطی کا ہے، جس پر اسے ایک اجر ملے گا (ازا لۃ الخفاء) جو معصیت اور مخالفت ِشریعت پر کبھی نہیں مل سکتا۔ اس لئے اس صورت میں بھی حضرت امام کے اس اقدام کو غیر شرعی اقدام نہیں کہا جاسکتا کہ ان کے ماجور عنداللہ اور شہید ِ مقبول ہونے میں کسی تأمل کی گنجائش ہو۔ (۴) رہیں وہ احادیث جن میں باوجود امیر کے شدید فسق و فجور کے بھی اس پر خروج و بغاوت کی شدید ممانعت آئی ہے اور ان ہی کی رُو سے عباسی صاحب نے حضرت امام پر الزامِ خروج و بغاوت لگا کر ان