حیات طیب رحمہ اللہ تعالی جلد 1 |
یات طیب |
|
پیدا کرتے جاتے اور مرکزی موضوع متعدد ذیلی موضوعات پر اس طرح پھیل جاتا کہ ان کی تقریر کے دوران بیچ میں حاضرِ مجلس ہونے والا سامع بسا اوقات یہی سمجھتا تھا کہ حضرت فلاں موضوع پر گفتگو فرما رہے ہیں ، حال آں کہ وہ کوئی ذیلی گوشہ ہوتا جس پر وہ اظہار خیال کررہے ہوتے تھے۔ ان کی تقریر شاخ در شاخ ہو کر پھر مرکزی تنے سے اس طرح جڑتی چلی جاتی تھی کہ بہت کم مقرروں کے لئے، اس طرح کی لمبی لمبی شاخوں کو مرکزی موضوع سے جوڑنے کی صلاحیت ہوتی ہے۔ وہ نہ کبھی مرکز سے ہٹتے، نہ اصل موضوع کو بھولتے، جب کہ ذیلی موضوعات پر دراز کلامی سے عموماً مرکزی موضوع کا سرا ہاتھ سے چھوٹ جایا کرتا ہے۔ وہ ہر ذیلی موضوع پر سیر حاصل گفتگو کرتے اور پھر قرینے سے انہیں اصل موضوع سے جوڑ دیتے۔ تقریر کے دوران کتاب و سنت کے نصوص کو اصل عربی میں پڑھتے اور ان کا انتہائی سلیس اور مزے دار ترجمہ کرتے۔ اقوالِ سلف کو بھی ان کی اصل زبان میں ہی پیش فرماتے: عربی ہویا فارسی یا اردو۔ دلچسپ لطیفوں ، درس انگیز حکایات، عبر خیز نکات، نازک اشارات، معنی ریز تشبیہات، عقل کشا واقعات، ذہن کو بیدا کرنے والے نت نئے خیالات و التفاتات اور سب سے بڑھ کر تجدیدِ ایمان و یقین کا سامانِ صد ہزار رکھنے والے ایسے حقائق حیات سے، ان کی تقریریں بھری پُری ہوتیں ، جن سے دل کا ہرزنگ دور ہوجاتا، ہمتِ عمل پر سان چڑھتی،کائنات میں پھیلی ہوئی خدا کی ان گنت نشانیوں پر غور کرنے کا نہ ختم ہونے والا جذبہ بیدار ہوتا اور بہت سی مرتبہ گنہ گارآنکھوں کو غسل تطہیر کا سامان میسر آجاتا اور آدمی سابقہ خطائوں سے بالکلیہ توبہ کرلینے کی، ایسی توفیق لے کر اٹھتا کہ آئندہ زندگی میں اپنی تقدیر اپنے ہاتھ سے لکھنے کی راہ پاجاتا۔‘‘ (۵۰) حکیم الاسلامؒ کے خطبات اتنے مربوط، مرتب ہوتے تھے کہ ان کو بعینہ ٹیپ ریکارڈ کی مدد سے کتابی شکل دی جاسکتی تھی، کسی ترمیم کی ضرورت ہی نہ تھی، آپ کے اکثر خطبات ٹیپ ریکارڈ کی مدد سے مرتب ہوئے ہیں ، خطبات کے چند ہی اقتباسات سے قارئین کرام کو اندازہ ہوجائے گا کہ حکیم الاسلامؒکی تقریر میں تحریر کی لذت اور تحریر کا لطف اٹھایا جاسکتا ہے، مضامین کی روانی،معانی کا بہائو اور نئے نئے زاویوں ، گفتگو اور نئے نئے اسالیب میں ارشاد و افادہ دونوں جگہ تھوڑے بہت فرق کے ساتھ موجود ہے۔انسانی فضیلت کا راز انسانی فضیلت کا راز کیا ہے؟ اور وہ صفت یا وصف کون سا ہے جو انسانی فضیلت کی بنیاد بن سکے۔ حکیم الاسلامؒ اس کی وضاحت یوں فرماتے ہیں :