حیات طیب رحمہ اللہ تعالی جلد 1 |
یات طیب |
|
سنگین کتبہ پر بہلول شاہ ثبت ہے۔ مسجد خانقاہ عہد اکبری کی یادگار ہے، مسجد سرائے پیرزادگان عہدِ جہاں گیری کے آثارمیں سے ہے۔ یہ بستی شمالی ہند میں ۲۹درجہ ۵۸دقیقہ عرض البلد اور ۷۷درجہ ۳۵ دقیقہ طول البلد دہلی سے ۹۲میل شمالی جانب صوبۂ یوپی میں واقع ہے، شیرشاہی شاہراہ اعظم جو پشاور سے کلکتہ تک چلی گئی ہے، اس بستی سے ہو کر گزرتی ہے اس بستی میں قدامت کے ساتھ مرکزیت کی شان بھی پہلے ہی سے موجود تھی، لیکن قدرت کو اس رسمی مرکزیت سے شرعی مرکزیت کا کام لینا تھا اور اس جگہ سے علم کا ایک ہمہ گیر چشمہ جاری کرنا تھا جو نہ صرف ہندوستان بلکہ دوسرے ممالک کو بھی علوم نبوت سے سیراب کرے۔ روشن ضمیر، اہل دل اس کی پیشین گوئیاں پہلے سے کرتے آرہے تھے (جس کی تفصیل ’’تاریخ دارالعلوم‘‘ میں دی گئی ہے) ان پیشین گوئیوں کے مطابق یہ بستی عالموں ، فاضلوں ، قادر الکلام ادیبوں ، آزادی کے جاں باز مجاہدوں اور دینی میدان کے سرفروشوں کی بستی بننے والی تھی، یابہ اسباب ظاہرہ یہاں کی قدیم مساجد کی اذانوں اور تکبیروں ، ذکر و تلاوت کی محفلوں اور نمازیوں کے جمگھٹوں کی برکات کا ظہور دینی رنگ میں ہونے والا تھا۔دارالعلوم دیوبند کا پس منظر اور اسبابِ تاسیس وقت آیا تو ۱۸۵۷ء کے ہنگامۂ رست و خیز کے بعد اس بستی کا نیا دور شروع ہوا اور یہاں علمی وعرفانی زندگی کا ستارہ طلوع ہوا، جبکہ ہندوستان کی باگ ڈور انگریز کے ہاتھ میں جاچکی تھی، اسلامی شوکت کے چراغ میں صرف دھواں اٹھتا ہوا رہ گیا تھا جو چراغ کے بجھ جانے کا اعلان تھا، دہلی کا تخت مغل اقتدار سے خالی ہوچکا تھا، اسلامی شعائر رفتہ رفتہ رو بہ زوال تھے، دینی تعلیم گاہیں اور علمی خانوادے اجڑ چکے تھے، دینی شعور رخصت ہو رہا تھا، جہالت وضلالت کی گھٹائیں اُفق ہند پر چھا چکی تھیں ، سننِ انبیاء کی جگہ جاہلانہ رسوم و رواجات مشرکانہ بدعات و خرافات اور ہوا پرستی زور پکڑتی جارہی تھی جس سے دہریت و الحاد، فطرت پرستی، آزاد فکری، بے قیدی نفس اور فضولیت کی وبا پھوٹ پڑی تھی، چمنِ اسلام میں خوش آواز پرندوں کے زمزموں کی جگہ زاغ و زغن کی مکروہ آوازوں نے لے لی تھی، مسلمان مضطرب و بے چین اور مایوسی کا شکار تھے، علماء کے لئے پھانسیوں کے پھندے تھے یا جلاوطنی کے مصائب، اس وقت چند نفوس قدسیہ نے منور قلوب میں یہ خلش اور کسک محسوس کی کہ ستم رسیدہ مسلمانوں کے ملّی وجود کے تحفظ اور علوم نبوت اور اسلامی معاشرے کو بچانے کی کیا صورت اختیار کی جائے اور ان میں شعور اور ایمان دارانہ سیاسی فکر کو حیاتِ نو کس