حیات طیب رحمہ اللہ تعالی جلد 1 |
یات طیب |
|
ہرمرحلے اور زمانے کے گرم، سرد میں ہر لمحہ ایک پاسبان کی طرح ساتھ رہے۔ تجربات، مشاہدات اور علم و کمال کے نئے نئے سیر نے اعلیٰ ظرفی کی صفت کو اور مثالی بنا دیا تھا۔ جاننے والے جانتے ہیں کہ دارالعلوم دیوبند کے اہتمام کی بھاری بھرکم ذمہ داری اور وہ بھی ایسے دور میں جب اساطین علم اربابِ بصیرت اور اصحابِ تقویٰ و طہارت سے دارالعلوم دیوبند کی فضا معمور اور ماحول معطر تھا۔ ہر اعتبار سے غیرمعمولی شخصیت کا حصہ ہی ہوسکتی تھی۔ کیسے کیسے انقلاب رونما ہوئے اور کیسے ہائلے اور حادثے سامنے آئے۔ کہنے والوں نے کہنے کی انتہاء کردی، الزامات اور اتہامات الامان، الحفیظ! بدزبانیاں ، بدکلامیاں اور بدگوئیاں الحذر! نہ نسبت کا خیال، نہ مرتبہ کا لحاظ، نہ خدمات و بے شمار احسانات کی رعایت، سب کچھ بالائے طاق رکھ دیا گیا۔ یہ حکیم الاسلامؒ کا اعلیٰ ظرف ہی تھا کہ ان حالات میں بھی انہوں نے اف تک نہیں کیا۔ شکوہ اور شکایت تو درکنار کوئی اگر ذکر بھی کرتا تو حالات سے زیادہ ان کے ذکر سے طبیعت مکدر ہوتی ع وہ اپنی خو نہ چھوڑیں گے ہم اپنی وضع کیوں بدلیں ؟ ہر حال میں ایک ساکت اور خاموش بحر بیکراں ، دیکھنے والا ان کے مزاج، گفتگو، طرزِ عمل اور کسی بھی ادا اور کسی بھی انداز سے ان کی اعلیٰ ظرفی کے معیار کو گرتا ہو انہیں دیکھ سکا مگر ایسا فرشتہ سیرت شخصیت کو طعن و تشنیع کا ہدف بنانے والوں کی کم ظرفی کا مشاہدہ ایک دنیا نے کیا اور خود انہوں نے بھی۔ حتی کہ کمزور سے کمزور نگاہ والوں نے یہ فیصلہ کیا کہ حکیم الاسلامؒ کا طریق بہرآئینہ مقابل و معارض کی روش سے یکسر مختلف ع ببیں تفاوتِ راہ از کجا تا بہ کجا ربِ کریم اپنی رحمتوں ، آخرت کی نعمتوں اور بلند مرتبوں سے نوازے۔ اس باب میں آپ کے کن کن واقعات کو ذکر کیا جائے۔ لوگوں نے اپنے نامۂ اعمال کو عمداً و قصداً ان کی شخصیت کو داغ دار کرکے سیاہ کرلیا اور یہ فرشتہ سیرت انسان سب کی سن کر بلند درجات پاگئے۔ رب اغفر وارحم۔شگفتہ مزاجی حکیم الاسلام ؒ کی شخصیت باغ و بہار شخصیت تھی، مگر عالمانہ ظرافت غالب تھی، مبتذل اور عامیانہ قسم کی ظرافتوں کا آپ سے تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔