حیات طیب رحمہ اللہ تعالی جلد 1 |
یات طیب |
|
جذبہ پامال نہ ہونے پائے ۔سو اس کی رعایت بھی فی الجملہ اسی آیت میں فرمائی گئی ہے۔ کیونکہ یہ ظاہر ہے کہ اس نسبی وقار وخود داری کا کوئی ادنیٰ اعتبار اجرائے احکام شرعیہ میں تو نہیں کیا جاسکتا کہ یہاں نسب و غیرنسب ایک درجہ میں ہیں ، نہ مقبولیت عند اللہ میں اس کا کوئی اثر ہے کہ وہاں نسیب وغیر نسیب کے لئے ذریعہ ٔ کرامت صرف تقویٰ ہے۔ غرض معاملہ مع اللہ میں نسبی وقار کا کچھ نہیں اٹھتا، ہاں معاملہ مع الخلق میں کسی حد تک اس کا اعتبار کیا جانا طبعی رفتار کے خلاف بھی نہیں ہے ، مگر معاملاتِ عامہ میں نہیں بلکہ صرف اسی معاملہ میں جہاں انسانوں کے کسی طبعی مگر مستحکم میل ملاپ کا قصہ در پیش ہو اور ان کے باہمی عادات وطبائع کی ایک ایسی محکم آمیزش ہورہی ہو جس سے عمر بھر کے لئے ان کے معاملات ومنافع مشترک ہوجائیں ، یگانگت اس درجہ پر کرائی جارہی ہو کہ بیگانگی کا نشان نہ رہے، توافقِ طبائع اس قسم کا مطلوب ہو کہ ایک کے لئے دوسرا باعث ِتشویش خاطر ہونے کی جگہ انتہائی مودّت ورحمت اور تسکین ِخاطر کا سبب ہوجائے اور ظاہر ہے کہ ایسا معاملہ ایک نکاح وازدواج ہی کا معاملہ ہے‘‘۔(۹۳)جزئیات کا حسن و قبح کلیات کے تابع ہے جزئیات کا حسن و قبح فی نفسہٖ ہوتاہے یا کلیات کے تابع ہے؟ ایک اصولی اور علمی بحث ہے۔حکیم الاسلامؒ نے اس بحث کو اتنے آسان اندازمیں بیان فرمایا ہے کہ گویا کہ لوہے کو پانی بنا دیا ہے۔ ’’وجہ یہ ہے کہ جزئیات یا فرعیات کسی بھی دائرہ کی ہوں اور کتنی ہی صحیح کیوں نہ ہوں خود ان کا حسن وقبح بذاتہ کوئی معیاری حیثیت نہیں رکھتا بلکہ ان کی خوبی وخرابی کا معیار درحقیقت وہ کلیات یا اصول ہوتے ہیں جن کے سلسلہ سے وہ پیش کی جاتی ہیں ۔ مثلاً اگر ایک شخص نماز کے شرعی فضائل بیان کرے، مگر خود نماز کو ذکر اللہ اور قربِ الٰہی کے بجائے پہلوانی کے نقطۂ نظر سے دیکھ کر ایک جسمانی ورزش قرار دے تو اگرچہ یہ فضائل خود اپنی جگہ کتنے ہی صحیح ہوں مگر اس خاص نقطۂ نظر کے ماتحت غلط ہوجائیں گے۔ اس لئے بات صحیح ہونے کے باوجود اصولاً کذبِ محض اور خلافِ واقعہ ہو جائے گی۔ یااگر ایک شخص حج کے شرعی محاسن پر تقریر کرے مگر خود حج کو سیاسی نقطۂ نظر سے محض ایک بین الاقوامی کانفرنس تصور کرتا ہو جو تبادلۂ افکار یا مظاہرۂ اجتماعیت کے لئے منعقد کی گئی ہو، نہ کہ مظاہرۂ عشق ومحبت ِخداوندی کے لئے، تو یہ سارے فضائل اس نقطۂ نظر سے غلط ٹھہر جائیں گے، اگرچہ خود یہ فضائل صحیح اور منصوص بھی ہوں ، کیونکہ زاویۂ نظر بدل جانے سے ان کا استعمال بے محل ہو گیا اور وہ کذبِ محض ہو گئے‘‘۔