حیات طیب رحمہ اللہ تعالی جلد 1 |
یات طیب |
|
نواسنج انا الحق اے نوا سنجِ انا الحق ترا کہنا تھا بجا پر نہیں پاسِ ادب عشق میں دعویٰ ہونا ہے انا عشق میں اک راز درونِ پردہ پر نہیں راز کا حق، راز کا افشا ہونا عشق خوددار ہے خود رازِ درونِ عشاق عشق کی خامی و رسوائی ہے لب وا ہونا شور برپا نہ ہو ہر ایک بلا ہو برسر یاں ہے برسر ہی ہنر عیب ہے برپا ہونا اپنے آپے میں خودی ہو تو خودی ہے ورنہ اپنے آپے سے گذرنا ہی ہے رسوا ہونا غیرتِ عشق ہے اسرارِ خودی ہوں خاموش نہ کہ اسرارِ خدا تک سے بھی گویاہونا دیکھ کر مہر کو اپنے میں نظر آئے جو مہر یہ نظر ہی نہیں آنکھوں کا ہے خیرا ہونا ہو اَنا مونہہ میں تو انت کی صدا کا کیا منہ ہے انا ہی کا فنا منہ کا مداوا ہونا نعرۂ سنجیٔ انا حق سہی لیکن پھر بھی شرطِ انصاف ہے، انصاف سے گویا ہونا ہے انا حسنِ نوا بحر بقطرہ ہو اگر پر نہیں اس کا محل قطرہ بدریا ہوناختمِ نبوت اک نبوت ہی نہیں ختم نبوت بردوش اک صحیفہ ہی نہیں ہاتھ میں اعجازی کتاب ذاتِ خاتم میں نبوات کے سارے انوار ذاتِ قرآں میں ہدایات کے سارے ابواب کیسے اقوام و ملل میں نہ پہنچتی یہ ضیاء جب کہ جامع بھی تھی، خاتم بھی تھی ذات اور کتاب خاتمِ وحی خدا، خاتمِ علم و اخلاق خاتمِ نورِ نبوت، زرہِ علم و کتاب منبع سرِ سلف، مصدرِ انوارِ خلف جس سے ہیں سارے نبی اور ولی فیض مآبدعوتِ الی اللہ اعلاء دین کی ہے خلافت اسے ملی وہ نائبِ حضورِ رسالت مقام ہے اللہ کی وکیل ہے خلقت پہ ہے گواہ اور اُس پہ پھر گواہی خیرالانام ہے دعوت میں اس کی حق کی امانت ہے مستتر علم اور عدل میں وہ جہاں کی امام ہے اس علم اور عدل سے اسلام کا نظام غلبہ میں اور ظہور میں اعلاء مقام ہے