حیات طیب رحمہ اللہ تعالی جلد 1 |
یات طیب |
|
حضرت مولانا عبدالحلیم جونپوریؒ حامداً و مصلیاً و مسلماً ٍ برادر گر ا می! السلام علیکم و رحمۃ اللہ و بر کا تہ حادثۂ جانکاہ کی اطلاع نے نہ پو چھئے دل و دماغ پر کیا اثر کیا ، حضرت مہتمم صاحب ؒ سے آپ کا تو خیر روحانی و جسمانی رشتہ تھا ، اس کا بیان ہی غیر ضروری ہے ،لیکن ان کی جو شفقتیں اور عنایتیں تا حال ا س حقیر پر رہیں ان کے پیش نظر میں اسے سمجھنے میں بالکل حق بجانب ہوں کہ میں بھی اپنے باپ کے ظل عاطفت سے محروم ہو گیا، ابھی لکھنؤ کے آخری سفر میں محرم الحرام ۱۴۰۳ھ میں میری در خواست پر غریب خانہ بھی تشریف لائے تھے اور اس طرح کہ کئی دوسرے قریبی لوگ بھی حضرتؒ کے اس وقت کے خواہش مند تھے مگر سب کو نظر انداز کر کے حضرت والا نے اس حقیر ہی کی حوصلہ افزائی فر ما ئی ۔ دار العلوم کے کر بناک حالات نے حضرتؒ کو بے چین کر دیا تھا جس کے نمایاں اثرات ان کی صحت پر بھی پڑے تھے ، افسوس ہے کہ آخری دنوں میں ان کو ایسی ذہنی اذیتوں سے گذرنا پڑا جس سے خدا دشمن کو بھی محفوظ رکھے ، انشاء اللہ یہ سب کچھ ان کے لیے ذخیرۂ آخرت ہو گا ، حسرت تو ہم خوردوں پر ہے کہ حضرت مہتمم صاحبؒ کے بعد کو ئی بھی تو ایسا نہ بچا جسے اپنا سر مایہ اور اپنے مسلک کا نقیب قرار دے سکیں ۔ میری طرف سے برادران عزیز و محترم مو لا نا محمد اسلم صاحب و مو لوی محمد اعظم صاحب نیز دیگر متعلقین خاندان کی خدمت میں بھی تعزیت مسنونہ پیش کر دیں ، نو ر چشم مو لوی عبد الولی سلمہ بھی رمضان المبارک سے مسلسل بیمار ہیں بلکہ رمضان میں تو ان کی علالت نے بڑی پیچیدگی اختیار کر لی تھی وہ بھی خدمت والا میں سلا م گذار ہیں وہ علیحدہ خط بھی لکھ رہے ہیں ، نیز اپنے رسالہ ’’البدر ‘‘ میں بھی حضرت مہتممؒ کے سلسلہ میں لکھ رہے ہیں ، ان کی صحت و عافیت کے لیے آپ سے خصوصی دعا کی درخواست ہے ، خدا کرے مزاج سامی مع جملہ متعلقین بعافیت ہو ۔ ……v……