حیات طیب رحمہ اللہ تعالی جلد 1 |
یات طیب |
|
آیۂ اخلاق کامل طیب و پاکیزہ رُو زینتِ گلزارِ قاسمؒ جامعِ صد رنگ و بُو فخرِ ملت ، شمعِ حکمت، مقتدائے ما امام لائق مدح و ستائش صاحبِ حسنِ نظامبسم اللہ تسمیہ خوانی کی رسم جن خصوصیتوں کے ساتھ آج ہم پا رہے ہیں بجنسہٰ اپنے انہی لو ازم کے ساتھ یہ رسم اسی ملک میں آج سے پا نچ چھ سو سال پیشتر بھی ادا ہو رہی تھی ، فوائد الفؤاد میں امیر حسن علا سنجری نا قل ہیں کہ: شنبہ شا نزدہم ما ہ محرم ۷۱۶ھ سعادت دست بو سی حاصل شد ، بند ہ آں روز خرد کہ را از اعزہ پیش بر د ، عرض داشت کر دکہ ایں رابہ قرآن خواند ن فر ستادہ شود ، اول بخدمت مخدوم آور شدہ است تابہ بر کت نظر مخدوم و نفس پا ک خدائے تعالیٰ وزی کند۔(۲) ۱۶؍محر م الحرام ۷۱۶ھ روز شنبہ دست بو سی کی سعادت حا صل ہو ئی ، بند ہ اس دن ایک عزیز بچہ کو خدمت میں لے گیا ، عرض کیا کہ اس کو قرآن پڑھا نے کے لیے بھیجا گیا ہے، پہلے آپ کی خدمت میں پیش کیا جا تا ہے کہ مخدوم کی نظر کیمیا صفت کے صدقے میں اس کو قرآن ارزانی ہو ۔ اور یہی رواج مسلما نوں میں بحمد اللہ اب تک جا ری ہے کہ شہر یا قصبہ و گائو ں میں نسبتاً جو زیا دہ صاحب دین و علم ہو ، بچو ں کا مکتب ان ہی سے کر اتے ہیں ، امیر حسن اس کے بعد لکھتے ہیں کہ سلطان المشائخ نے یہ سن کر ’’دعائِ خیر ارزانی داشت‘‘جب دعا ہو چکی : بعد ازاں تختہ بدست مبا رک گر فت ونو شت ’’بسم اللہ الر حمن الرحیم‘‘ ’’اللہ الرحمن الرحیم ‘‘ کی یا د تو ہر کا م سے پیشتر مسلمانوں کا دستور ہی ہے، لیکن عجیب با ت ہے کہ جن الفاظ کے ساتھ آج بھی بچوں کے مکتب کا آغا ز ہو تا ہے ، سلطان المشائخ رحمۃ اللہ علیہ کے زمانے میں بھی آغاز کے وہی الفاظ مر وج تھے، حسن لکھتے ہیں کہ بسم اللہ کے بعد حضرت والا نے رقم فر مایا : ’’رب یسر ولا تعسر‘‘ (اے اللہ علم کو آسان کر اسے دشوار نہ بنا) ’’ا ب ت ث ج‘‘ ہجا کے یہ حر وف سلطان المشائخ نے اپنے دست مبا رک سے لکھے ، خرف آگے بڑھایا گیا اور حضرت والا نے: