حیات طیب رحمہ اللہ تعالی جلد 1 |
یات طیب |
|
اسی اثناء میں حضرت مولانا محمد احمد صاحبؒ اور حضرت مولانا حبیب الرحمن عثمانی ؒدونوں بزرگوں کو حیدرآباد کا سفر پیش آیا۔ یہ سردی کا زمانہ تھا۔ ان بزرگوں کے ساتھ سفر میں حضرت مولانا محمد طیب صاحبؒ بھی تھے۔ دیوبند سے چل کر درمیان میں بھوپال ایک رات قیام رہا۔ حکیم الاسلام حضرت مولانا محمدطیب صاحبؒ کا بیان ہے کہ: جس کمرہ میں ان حضرات کی چارپائی تھی،اس کی پائنتی میں میرے لیے بھی چارپائی بچھا دی گئی۔ تہجد کا جب وقت آیا۔ تو یہ دونوں بزرگ اور مولانا سعید الدین صاحبؒ ممبر مجلس شوریٰ دارالعلوم دیوبند ریاست بھوپال اٹھے اور نماز میں مشغول ہوگئے۔ میں اس وقت جاگ رہا تھا مگر بستر پر پڑا رہا۔ اٹھا نہیں ، مولانا سعید الدین صاحب رامپوریؒ جو حضرت گنگوہیؒ کے خاص لوگوں میں تھے۔ مجھے سوتا ہوا دیکھ کر ان حضرات سے فرمایا کہ اس کو کسی بزرگ کی طرف رجوع کرانا ضروری ہے اور اس سلسلہ میں میری رائے یہ ہے کہ ہماری جماعت میں اس وقت حکیم الامت حضرت تھانویؒ بڑـے لوگوں میں ہیں ، ان سے وابستہ کرنا مناسب رہے گا۔ یہ مشورہ ان برزگوں کی سمجھ میں آگیا، جب یہ حضرات حیدرآباد کے سفر سے دیوبند واپس آئے۔ تو حضرت مولانا حبیب الرحمن صاحب عثمانی نے حکیم الامت حضرت تھانویؒ کی خدمت میں خط لکھا کہ ہم لوگوں کی خواہش یہ ہے کہ مولوی محمد طیبؒ کو بسلسلہ تربیت باطن آپ کے سپرد کریں اور آپ اس کی اصلاح فرمائیں ۔ اس کے جواب میں حضرت تھانویؒ نے تحریر فرمایا کہ ’’وہ میری اولاد ہے جب چاہے آجائے۔ لیکن اصول کا تقاضہ یہ ہے کہ وہ اپنے بارے میں خود لکھے۔ آپ اس سے فرمادیں کہ وہ خود براہ راست میرے نام خط لکھے، چناں چہ ان حضرات کا ایما ہوا تو میں نے حضرت والا کی خدمت میں ایک خط لکھا اور ا س میں وابستگی کی درخواست کی، حضرت والا نے جواب میں تحریر فرمایا۔ تو میری اولاد ہے کسی کی سفارش کی ضرورت نہیں ہے۔ جب بھی فرصت ہو فوراً آجائو۔تھانہ بھون حاضری اتنے میں رمضان المبارک کا مہینہ آگیا۔ میں نے دارالعلوم کی مسجد میں تراویح سنانا شروع کردی۔ ڈیڑھ پارہ سنا کر بیس دنوں میں قرآن پاک ختم کیا اور بیس رمضان کو تھانہ بھون حاضر ہوگیا اوراخیر عشرہ تھانہ بھون میں حضرت کے پاس گذارنے کے ارادے سے حاضر ہوگیا۔ حاضر ہونے کی اطلاع پہلے دے چکا تھا۔ جس دن میں پہنچا وہ جمعہ کا دن تھا۔ جمعہ کا قت ہوچکا تھا۔ مسجد نمازیوں سے بھری پڑی تھی۔ میرے پہنچتے ہی