حیات طیب رحمہ اللہ تعالی جلد 1 |
یات طیب |
|
سپاس نامہ یہ سپاس نامہ انجمن خدام دیوبند سرگودھا (مغربی پاکستان) کی طرف سے حضرت حکیم الاسلام ؒکی خدمت میں پیش کیا گیا۔ عالی جاہ!ہم خدام تنظیم دیوبند اللہ تعالیٰ کا لاکھ لاکھ شکر ادا کرتے ہیں جس نے ہم مشتاقانِ زیارت کو نبیرہ قاسم العلوم والخیرات کی دوبارہ تشریف آوری سے نوازا، آپ جیسی واجب الاحترام شخصیت نے طویل سفر کی صعوبتیں برداشت کرکے ہم خدام کو اپنی تشریف ارزانی سے معزز و مفتخر فرمایا، ہم آپ کی اس ذرہ نوازی پراپنی محبت اور مخلصانہ عقیدت کا اظہار کرتے ہیں ۔ جناب والا!ہم اس مرکز علم و حکمت اور ازہر ہند دارالعلوم دیوبند کے خوشہ چین ہیں جس کے آپ مدبر شہیر اور مہتمم ذی وقارہیں اور جو اس الحاد و بے دینی کے دور میں بھی طالبان علوم نبویہ کے لئے مرکز اور جوئندگانِ حق و صداقت کا منتہائے نظر ہے انشاء اللہ اس مشعل رشد و ہدایت کی علمی کرنیں رہتی دنیا تک ضوافشاں رہیں گی۔ حضرت والا! دارالعلوم دیوبند سے ملکی تقسیم کے باعث بظاہر ہم کٹے ہوئے ہیں اور یہ قدرت کا وہ ناگزیر فیصلہ ہے جس کے سامنے سرتسلیم خم کرنے کے سوا چارۂ کار نہیں ہے مگر ہم ان ظاہری پردوں کے باوجود قدرتاً اپنے دلوں میں علمی و روحانی رشتے کو پہلے سے زیادہ مضبوط و مستحکم پاتے ہیں ۔ ملت اسلامیہ پر دارالعلوم اور اس کے اکابر بالخصوص قاسم العلوم والخیرات حضرت مولانا محمد قاسم نانوتویؒ کا جو احسان عظیم ہے اس کو ملتِ اسلام کبھی فرموش نہیں کرسکی۔ انقلاب ۱۸۵۷ء کے بعد ایک طرف انگریز اپنی دسیسہ کاریوں سے ملحدانہ نظام تعلیم، مغربی تہذیب کے نفاذ کی تدابیر اور عیسائیت کی تبلیغ میں منہمک تھا، آریہ سماج اور شدھی سنگھٹن جیسے فتنے سراٹھا رہے تھے، دوسری طرف یہ مردِ حق کی بربادیوں کا منظر دیکھ کر مسلم قوم کو اس کے زہریلے اثرات سے بچانے کے لئے دین محمدؐ کا ایک مضبوط قلعہ تیار کر رہا تھا۔ اسی آغوش تربیت سے شیخ الہند مولانا محمود حسن صاحبؒ اسیر مالٹا، محدثِ اعظم حضرت مولانا محمد انور شاہ صاحب کشمیریؒ، حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی صاحب تھانویؒ، مفتی اعظم حضرت مولانا کفایت اللہ صاحبؒ، شیخ الاسلام علامہ شبیر احمد عثمانی صاحبؒ حضرت مولانا حسین احمد صاحب مدنیؒ جیسے مجاہد اور متبحر علماء پیداکئے جن کی علمی قابلیت، علمی صلاحیت اور سیاسی بصیرت کے سامنے ناموران عالم کی گردنیں جھکے بغیر نہ رہ سکیں ۔