حیات طیب رحمہ اللہ تعالی جلد 1 |
یات طیب |
|
یہ سارے اولیاء و اتقیاء تھے محبِ حق تھے مقبولِ خدا تھے تھے پہلے دو مسلّم قطبِ ارشاد فنا فی اللہ اور دنیا سے آزاد تھے علم ظاہر و باطن میں قدوہ عمل اور اتباعِ حق میں اُسوہ محدِّث اور محدَّث باطریقت تھے دونوں قطبِ تکوین و شریعت اور آخر کے تھے پانچوں غرقِ احسان بعرفان حجت و در دین برہانآثارِ علم مدارِ مستند تھے قاسم العلم بنے یعقوب اُن سے پھر درِعلم اسی جڑ سے یہ شاخیں ساری پھوٹیں پھر اُن سے ٹہنیاں کتنی ہی ابھریں کھلے پھول اُن پہ رنگا رنگ ہر سو مہک اٹھی جہاں میں اُن کی خوشبو تری بنیاد ان سچوں نے ڈالی تری طفلی انہوں نے ہی سنبھالی تو اُن کے عزم و اخلاصِ دروں سے چڑھا پروان ان کی برکتوں سے تو کونپل تھامگر ہے آج شجرہ وہ شجرہ ہے دوامی جس کا ثمرہ ترے شیریں پھلوں سے دل کی دنیا ہے شیریں لب سرور آگیں بہر جا ترا ایک ایک پھل ایک ایک درخت ہے درخت اندر درخت اندر درخت ہے ہے شیخ الہند اس وادی میں کوئی حکیم الامت اس گلشن میں کوئی کوئی ہے شیخ تفسیر معلی کوئی شیخِ حدیث نور افزا کوئی ہے شیخ فقہ و با درایت کوئی ہے محو اسناد و روایت کسی کو فنِّ احساں میں مہارت جو دل کے زیغ کو کرتاہے غارت کوئی افتاء کی خدمت میں ہے فانی کوئی تنظیمِ ملت کا ہے حامی کوئی میداں مجاہد مردِغازی کسی کا داعیہ ہے قوم سازی غرض ہر فن پہ اک اک شیخ حاوی فقیہ النفس کوئی، کوئی راوی یہ ابنائے قاسمی ہوں یا رشیدی ہوں یعقوبی کہ ابنائے رفیعی سبھی مل کر بنے نجمِ ہدایت انہیں سے پھیل پائی ہے سعادت سو اوّل قاسمی ابناء کولیجئے جو کافی ہیں مثالاً چند لیجئے