حیات طیب رحمہ اللہ تعالی جلد 1 |
یات طیب |
|
وفات موت اس کی ہے کرے جس پہ زمانہ افسوس یوں تو دنیامیں سب ہی آئے ہیں مرنے کے لئے دنیا آنی جانی ہے اور اس کی ہر شئے فانی ہے۔ دائم، لافانی اور جاودانی صرف اللہ سبحانہٗ و تعالیٰ کی ذاتِ معلّٰی صفات ہے۔ کلّ من علیھا فان و یبقٰی وجہ ربک ذوالجلال والاکرام اس خاک دان ارضی سے روزانہ نہ معلوم کتنے انسان عالم آخرت کی طرف روانہ ہوجاتے ہیں ، جن میں کچھ وہ ہستیاں بھی ہوتی ہیں جن کی زندگی عالم انسانیت کی زندگی اور جن کی موت ایک عالم کی موت ہوتی ہے ایک دور اور ایک عہد کا خاتمہ ہوجاتا ہے۔ ان کی موت پر ایک فرد، ایک خاندان، ایک جماعت اور مخصوص خطہ ماتم کناں نہیں ہوتا بلکہ زمانہ افسوس کرتا ہے، تاریخ اشک بار اور عالم سوگوار ہوتا ہے۔ حکیم الاسلام حضرت مولانا محمد طیب صاحب قدس سرہٗ کی ذات گرامی بھی ان شخصیات میں سے ایک تھی، حکیم الاسلامؒ کو اللہ تعالیٰ نے اپنے علمی و انتظامی معمولات کی پابندی، دینی و دعوتی اسفار کی مصروفیت اور تقویٰ و طہارت کی بدولت جسمانی تندرستی سے بھی نوازا تھا۔ معمولی عوارض کے علاوہ کبھی کسی تشویشناک عارضہ میں مبتلا نہیں ہوئے، جب کہ عمر مبارک کی ۸۵؍منزلیں طے کرچکے تھے،آخری وقت تک چلتے پھرتے اور اپنے سارے معمولات ہشاش بشاش انجام دیتے رہے۔عمر مبارک میں کبھی معذوری کی صورت سے دوچار نہیں ہوئے، انتقال سے پہلے طبیعت کچھ ناساز چل رہی تھی اور دیوبند کے مشہور حکیم جناب سید محمود علی صاحب ابن سید محفوظ علی صاحبؒ کا علاج چل رہا تھا۔ ۱۷؍جولائی ۱۹۸۳ء بروز اتوار وفات سے ٹھیک تین گھنٹے قبل اپنے پوتے مولانا محمد سفیان قاسمی صاحب مدظلہٗ، نائب مہتمم دارالعلوم وقف دیوبندجن سے حضرتؒ کو بے حد خصوصی تعلق تھا اور اکثر و بیشتر اپنے ہمراہ سفر میں بھی لے کر جاتے تھے ۱۹۷۰ء تا ۱۹۷۵ء تواتر کے ساتھ رمضان المبارک میں تراویح میں