حیات طیب رحمہ اللہ تعالی جلد 1 |
یات طیب |
|
سپاس نامے و استقبالیہ خطبات تحریر فرمودہ : حضرت حکیم الاسلامؒ حکام، امراء اور سلاطین اگر علماء کے دربارمیں آجائیں تو ان کی خوش نصیبی، علماء کرام ان معزز مہمانوں کی پذیرائی اور ضیافت، کام و دہن کی لذتوں سے اپنے احوال کے مطابق کر سکتے ہیں ، ورنہ تکلف کی صورت میں سراسر تکلیف اور زحمت میں مبتلا ہونے کا اندیشہ ہوتاہے مگر زبان و قلم سے ان کی شکر گزاری میں ان کی شان کو پیش نظر رکھنا لازمۂ اخلاق اور خاصۂ تہذیب و شائستگی ہے۔ خود حدیث میں بھی اس کی تاکید ہے السلطان ظل اللّٰہ ومن اھانہٗ اھانہ اللّٰہ ہمارے اسلاف نے سلاطین کے چوکھٹوں پر کبھی جبہاسائی کو گوارا نہیں کیا ، خود سلاطین ان کی خدمت میں چل کر آئے اور ہمارے اسلاف نے سنت نبویؐ کے مطابق ان کا استقبال و احترام بھی کیا، کلماتِ تحسین بھی پیش کئے اور شریعت کی حدود و قیود میں رہتے ہوئے ادب و احترام کے باب میں جو کچھ بن پایا کیا۔ حکیم الاسلامؒ کے عہد اہتمام میں دارالعلوم دیوبندمیں شاہِ افغان ظاہر شاہ، مولانا ابوالکلام آزاد اور عرب دنیا کے مشاہیر علماء، امراء کی آمد ہوئی تو حکیم الاسلامؒ نے ان کے شایانِ شان پذیرائی فرمائی۔ استقبالیہ جلسوں میں ان کی آمد کے شکریہ میں اپنے گوہر بار قلم سے کلماتِ سپاس بھی پیش فرمائے۔ ذیل میں اہل علم کے ذوقِ علمی کی ضیافت کے لئے حکیم الاسلامؒ کے قلم سے تحریر فرمودہ فصیح و بلیغ سپاس نامے پیش کئے جارہے ہیں : بہ پیش گاہ خسروی اعلیٰ حضرت ہمایونی المتوکل علی اللہ محمد ظاہر شاہ بادشاہ دولت مستقلۂ افغانستان خلداللہ ملکہٗ و دولتہٗ بعد از آدابِ شاہانہ و تحیات نیازمندانہ و دعاہائے مخلصانہ اعلیٰ حضرت معظم! امروز ما ہمہ خدام دارالعلوم مرکزی دیوبند خیلے خوش بختیم کہ دریں مرکز علمی بحفلۂ علماء