حیات طیب رحمہ اللہ تعالی جلد 1 |
یات طیب |
|
درس و تدریس رنگ ہویا خشت و سنگ چنگ ہو یا حرف وصوت معجزۂ فن کی ہے خونِ جگر سے نمود تدریس و تعلیم کا منصب ایک باعظمت اور بھاری بھرکم منصب ہے اور معلم اپنے آپ میں اس تدریسی منصب کا بے تاج بادشاہ، اس منصب کی ذمہ داریوں کے احساس کی گرمی، بادشاہوں کے بھی پسینے چھڑا دیتی ہے، ایک بادشاہ اپنی رعیت کی سرکشی اور بغاوت کو فوجی طاقت اور شاہی خزانوں کے ذریعہ دبا سکتاہے، مگر ایک معلم اپنی رعیت کی شرارت اور بغاوت پر صبر ہی کرسکتا ہے، جبر سے کام نہیں لے سکتا، اس کے پاس فوجی طاقت نہ شاہی خزانہ، اس کی اگرکوئی فوج ہوسکتی تھی تو وہ یہی طلباء تھے، اس کے پاس اگر کوئی خزانہ ہوسکتا ہے تو وہ صرف استاذانہ عظمت اور بلندی کردار کا تھا اور یہ طاقت استاذ کی سلطنت کا شہ ستون ہیں ، خدانخواستہ اس میں کوئی دراڑ پڑ گئی تو پھر سلطنت زیر و زبر اور اس کا سلطانِ عالی شان دھڑام سے زمین پر،تاجِ افتخار سرنگوں اور لباسِ عظمت تارتار۔ ڈاکٹر ذاکر حسین مرحوم سابق صدر جمہوریہ ہند پرائمری، متوسط اور اعلیٰ تعلیم پر کئی خطبات جامعہ اسلامیہ کے پلیٹ فارم سے دئیے۔ ایک جگہ اچھے استاذ اور حکمراں کا موازنہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں : ’’حکمراں جبر کرتے ہیں ، یہ صبر کرتا ہے، وہ مجبور کرکے راہ پر چلاتے ہیں ، یہ آزاد چھوڑ کر ساتھ لیتا ہے، ایک کے وسائل میں تشدد اور زبردستی، دوسرے کے وسائل میں محبت اور خدمت، ایک کا کہنا ڈر سے مانا جاتا ہے، دوسرے کا شوق سے، ایک حکم دیتا ہے دوسرا مشورہ، یہ غلام بناتا ہے، یہ ساتھی، اچھے استاذ کی زندگی کی جڑیں محبت کے چشمے سے سیراب ہیں ، اس لئے یہ وہاں امید رکھتا ہے جہاں دوسرے دل چھوڑ دیتے ہیں ، وہاں تازہ دم رہتا ہے جہاں دوسرے تھک جاتے ہیں ، اسے وہاں روشنی دکھائی دیتی ہے جہاں دوسرے اندھیرے کی شکایت کرتے ہیں ،یہ زندگی کی پستیوں کو بھی دیکھتا ہے لیکن ان کی وجہ سے ان بلندیوں کو نہیں بھول جاتا۔‘‘(۴۴) استاذ کے ادب و احترام کی فضا عصری دانش گاہوں میں کتنی مقدر ہے اور کیسی معطر، اس بحث کو