حیات طیب رحمہ اللہ تعالی جلد 1 |
یات طیب |
|
’’اور اگر کوئی کہے کہ میں پہاڑ کی کھوہ میں رہتا ہوں ، مجھے نہ کسی شیخ کی صحبت میسر ہے اور نہ میرا کوئی دوست ہے، نہ دشمن ہے،پھر میرے لئے اصلاح کا کیا طریقہ ہوگا۔ امام غزالیؒ لکھتے ہیں کہ اس کو بھی مایوس نہ ہونا چاہئے۔ اس کے لئے چوتھا طریقہ محاسبۂ نفس کا ہے۔ روزانہ سوتے وقت کم از کم پندرہ منٹ مراقبہ کرے اور سوچے کہ آج میں نے کتنی بھلائیاں کیں اور کتنے گناہ مجھ سے سرزد ہوئے، جو بھلائیاں کی ہوں ان پر شکر ادا کرے، اس لئے کہ شکریہ اد اکرنے سے اللہ تعالیٰ زیادتی کی توفیق دیں گے اور جو گناہ سرزد ہوئے ہوں ان پر سچے دل سے توبہ کرے، جب صدق دل سے توبہ کرلے تو سارے گناہ جھڑ جائیں گے۔ذکر اللہ روح عالم ہے حدیث میں آیاہے لا تقوم الساعۃ حتی یقال فی الارض اللّٰہ اللّٰہ یعنی کہ جب تک روئے زمین پر اللہ کانام لیا جاتا رہے گا اس وقت تک قیامت نہیں آئے گی، جس کے معنی یہ ہوئے کہ قیامت کو اللہ کا ذکر تھامے ہوئے ہے، جہاں ذکر بند ہوا قیامت آئی۔ اس مضمون کو حکیم الاسلامؒ کی زبان سے بھی سنئے، کتنا پیارا اور کیسا دل نشیں انداز ہے۔ آپ کوئی فرق محسوس نہیں کریں گے۔ فرمایا : ’’کائنات عالم کی روح جس سے وہ زندہ اور برقرار ہے ذکر اللہ اور یاد حق ہے۔ اگر یہ روح اس میں سے نکل جائے تو پھر یہ عالم برقرار نہیں رہ سکتا۔ جناب رسول اللہ Bنے ارشاد فرمایا کہ ’’قیامت اس وقت تک قائم نہیں ہوسکتی جب تک زمین میں اللہ، اللہ کہا جارہا ہے‘‘ یعنی جب تک ذکر اللہ کی گونج اس جہان میں قائم ہے جب تک یہ جہان قائم ہے، جس دن اس میں یادِ الٰہی باقی نہ رہے گی اسی دن اس عالم کی موت آجائے گی، جس کا نام قیامت ہے۔ اس سے صاف ظاہر ہے کہ عالم کی روح ذکر الٰہی ہے جس کے گم ہوتے ہی اس کی زندگی ختم ہوجائے گی۔‘‘ ’’پھر نہ صرف مجموعہ عالم بلکہ اجزائے عالم کی زندگی بھی یادِ الٰہی سے قائم ہے۔ حق تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ ’’کوئی چیز بھی ایسی نہیں ہے جو اللہ کی تسبیح اور حمد نہ کرتی ہو لیکن تم اس کی تسبیح کو نہیں سمجھتے۔‘‘ اور فرمایا کہ ’’ہر چیز نے اپنی نماز اور تسبیح کو جان لیا ہے۔‘‘ حدیث میں ہے کہ مائِ جاری اللہ کی تسبیح کرتاہے یعنی جب اس کی روانی رک جاتی ہے تو تسبیح بند ہوجاتی ہے اور وہی اس پانی کی موت کی ساعت ہوتی ہے۔ ارشاد نبوی ہے کہ ’’سرسبز ٹہنی اللہ کی تسبیح کرتی ہے۔‘‘ (یعنی جوں ہی وہ اپنی اصل سے جدا ہوتی ہے اس کی تسبیح بند ہوجاتی ہے اور یہی اس کے مرجھانے اور مرنے کی گھڑی ہوتی ہے) اسی طرح حضور B کا ارشاد ہے کہ ’’سفید کپڑا