حیات طیب رحمہ اللہ تعالی جلد 1 |
یات طیب |
|
اللہ کی تسبیح کرتا ہے‘‘ (پس جوں ہی وہ میلاہوتا ہے اس کی تسبیح بند ہوجاتی ہے اور یہی اس کی معنویت کی موت کا وقت ہوتا ہے۔ غرض ہر چیز کی زندگی ذکر اللہ سے ہے اور موت غفلت عن اللہ سے ہے۔ کائنات کا اہم جزو انسان ہے۔انسان کی حقیقی زندگی بھی ذکر الٰہی سے ہی ہے، اس کی معنویت کی روح بھی یہی ذکر اللہ ہے۔ نبی کریم B کاارشاد ہے کہ ’’جو شخص اپنے پروردگار کو یاد کرتا ہے اور جو یاد نہیں کرتا ان کی مثالیں زندہ اور مردہ کی سی ہیں ۔‘‘ یعنی ذاکر زندہ ہے اور غافل مردہ اس سے واضح ہے کہ انسان کی روحانی اور قلبی زندگی کی روح بھی ذکر اللہ ہے جس سے اس کا دل زندہ ہے کہ اصل زندگی دل ہی کی زندگی ہے۔‘‘ مجھے یہ ڈر ہے دل زندہ تو نہ مر جائے کہ زندگانی عبارت ہے تیرے جینے سےذکر اللہ ہی عمل صالح کی بھی روح ہے پھر اسی مضمون بالا کو ایک نئی طرح سے اور ایک نئے اسلوب سے ایک دوسرے مفہوم میں اس طرح ادا فرماتے ہیں : فرمایا : ’’پھر اسی طرح انسان کے عمل کی روح بھی ذکر اللہ ہی ہے جس سے وہ عمل قبول اور پائیدار ہوتا ہے۔ اگر انسانی عمل کا ڈھانچہ ذکر اللہ سے خالی ہو اور اس میں یہ روح نہ ہو وہ عمل ہی مردہ ہے جس پر نہ آخرت میں کوئی پھل آئے گا نہ دنیا میں اس کی قدر و قیمت ہوگی۔ جناب رسول اللہ B نے ارشاد فرمایا کہ ’’ذکر اللہ کرنے والے کی مثال ایک سرسبز درخت کی سی ہے، درختوں کے مجموعہ میں ‘‘ یعنی جیسے سرسبز درخت ہی پھل و پھول لاسکتا ہے نہ کہ خشک جھاڑ، ایسے ہی ذکر اللہ کی تازگی رکھنے والا عمل باثمر ہوسکتا ہے نہ کہ غفلت آمیز اور ریاکارانہ عمل۔ ظاہر ہے کہ جب ذکر اللہ روح عالم، روح کائنات، روح قلب و جان اور روح اعمال و افعال ہے تو ذکر اللہ ہی تمام اعمال میں افضل ترین عمل بھی ہوسکتا ہے، اسی لئے حدیث نبوی میں ذکر اللہ کو ’’خیر الاعمال‘‘ بہترین، پاکیزہ ترین عمل، بلند پایہ عمل،چاندی سونا خرچ کرنے سے بھی زیادہ اونچا عمل، جہاد فی سبیل اللہ سے بھی اعلیٰ ترین عمل فرمایا گیا ہے۔‘‘ذکر اللہ کے فوائد و برکات ذکر اللہ کے تکوینی اورکائناتی فوائد تو سامنے آئے، اب کچھ تشریعی اور اخروی فوائد پر بھی توجہ فرمائیے۔ فرمایا : ’’اسی لئے یہ ذکر اللہ کمال قرب الٰہی اور معیت حق کا ذریعہ ثابت ہوتا ہے۔ حدیث قدسی