حیات طیب رحمہ اللہ تعالی جلد 1 |
یات طیب |
|
’’عالم دوہی ہیں جنہیں ہر شخص ماننے پر مجبور ہے ایک دنیا اور ایک آخرت۔ دنیا ولادت سے شروع ہوتی ہے اور آخرت موت سے۔ یہ دونوں چیزیں ناممکن الانکار ہیں لیکن دنیا اور آخرت کا باہمی ربط کیا ہے، اس کے سمجھنے میں مختلف اقوام غلطیوں کا شکار ہوگئے ہیں ۔ بعض نے دنیا کے معنی سمجھنے میں غلطی کی سو محض تخیلات ہے، حالاں کہ ان دونوں کی بنیادیں سمجھنے کے لئے نقل مستند کی ضرورت تھی، یہ غیبی چیز تھی جسے انبیاء علیہم السلام کی تعلیم سے سمجھا جاتا نہ کہ عقل محض سے، جو خود انسان کا اپنا ہی ایک خلقی مادہ اور طبعی غریز ہے اور محض محسوسات تک محدود ہے، غیبیات کے دائرہ سے اس حاسہ کا تعلق ہی نہیں ۔ بعض اقوام نے تو آخرت کے معنی یا موت کے معنی فناء مطلق سمجھے کہ جو گیا وہ ہمیشہ کے لئے ختم ہوگیا۔ اب نہ اسے پھر زندہ ہونا ہے نہ کہیں جانا ہے۔ اس کا ثمرہ یہ نکلا کہ ان کا تمام تر مقصد دنیا ہی دنیا رہ گئی اور وہ اسی میں منہمک ہو کر ختم ہوگئے۔ یہ وہ متمدن اقوام ہیں جن کا دین ہی تمدن اور اس کے وسائل عیش کی تکثیر اور اس کے جوڑ توڑ میں عمر ختم کرکے مٹی میں جا کر ملنا ان کا پیغمبر ان کی عقل نارسا اور مادۂ دین یہی عناصر اربعہ اور شریعت بدنی منافع کا جوڑ توڑ لگاتے رہنا ہے۔‘‘عقل محض اور شرعی لائحہ عمل عقل انسانی قانون سازی کی اہلیت نہیں رکھتی،قانون پر عمل کرنے میں معاون ثابت ہوتی ہے۔ لہٰذا قوانین وضع کرنے کا حق صرف اللہ تعالیٰ کو ہے: ’’عقل محض شرعی پروگرام نہیں بناسکتی یعنی قانون جو جزئیات مطلوبہ پر مشتمل ہو یہ کام وحی کا ہے کیوں کہ جزئیات مطلوبہ کے معنی مرضی الٰہی کے ہیں اور مرضیٔ بالحق کا پتہ عقل محض سے نہیں چل سکتا بلکہ وحی سے ہوسکتا ہے اور اگر کچھ بنا بھی لے اور یہ سمجھ لے کہ یہی مرضی ہوگی جو معقول ہے حالاں کہ یہ ضروری نہیں کیوں کہ عقلیں متفاوت بھی ہیں اور مریض بھی ہوتی ہیں تو وہ اعمال پر آثار اور ان کے ذاتی خواص کا پتہ نہیں چلا سکتی، جیسے مادیات میں چل جاتا ہے کہ زہر کی خاصیت موت ہے امرتِ کی حیات وہ یہ نہیں بتلا سکتی کہ مثلاً وضوء کی کیا خاصیت ہے؟ بخار کی کیا ہے؟ اور ان کے عواقب کی صورت مثالی کیا ہے؟ کیوں کہ ہر عمل کی ایک صورت مثالی ہے، عالم مثال میں عقل اس کے ادراک سے عاجز ہے، جیسے مال کی شکل بلحاظ آثار کے سانپ کی ہے، غضب کی صورت آگ کی ہے، رحمت کی شکل پانی کی ہے، گناہ کی شکل نجاست کی ہے، نوع نیکی کی شکل طہور کی ہے اور بفرض محال اگر خواص اعمال کا پتہ چل بھی جائے تو ان کی مقبولیت عنداللہ کا پتہ نہیں چلا سکتی کہ وہ خود قبول بھی ہوں گے یا نہیں ۔‘‘