حیات طیب رحمہ اللہ تعالی جلد 1 |
یات طیب |
|
خطابت لذت ترے کلام میں یہ آئی کہاں سے پوچھیں گے جا کے حالی جادو بیاں سے ہم خطابت عطیۂ ربانی اور سنجیدہ خطابت اس کا لطف خاص، سحبان و وائل کی خطابت ضرب المثل اور زبان زدِ خاص و عام، سیدنا علی بن ابی طالب کی خطابت، فصاحت و بلاغت، حسن معنی، حسن تعبیر و حسن اسلوب کی شاہکار۔ خیال فرمائیے کہ صاحب جوامع الکلم، حاملِ کتاب معظم ، محمد عربیB کی خطابت مبارکہ کیسی ہوگی؟ یوں سمجھئے کہ ہر وصف اصول خطابت کا ایک گلشن صد رنگ، احکام ہوں تو ان کے مناسب تعبیرات، مناہی ہوں تو ان کے مطابق مضامین، نصائح ہوں تو ان کی مکمل رعایت ، انذار ہو تو اس کے سیاق و سباق کا اہتمام، بشارت ہو تو اس کے لوازمات کا التزام، الفاظ مختصر، ان میں معانی کا ایک سمندر موجزن، عام خطاب میں استعارات، کنایات سے گریز، مخصوص خطابت، فصاحت عرب کی آئینہ دار، معجز بیانی کی شاہکار، لب و لہجہ کا حسن اور مواقع کی رعایت، تنبیہ کا انداز الگ، ترغیب کا جدا، ترہیب مختلف، جامعیت بڑھ چڑھ کر، احادیث مبارکہ کا جو ذخیرہ امت تک پہنچا اگر اس کو نبوت کے ۲۳؍ سالہ ایام و ساعات پر تقسیم کیا جائے تو الفاظ کم مگر معانی و مفاہیم اس قدر کہ ابتداء کائنات سے آج تک جامع سے جامع کلام کرنے والے ہزاروں ، لاکھوں کے کلام میں جو جامعیت، معنویت، اعجاز اور بلاغت ممکن ہوسکتی تھی، اس سے ہزار گنا آپؐ کے ایک جملہ میں آگئی۔ دنیا کے کسی ناصح، کسی واعظ اور خطیب کی خطابت کے وہ ۲۳؍برس جو مکمل شعور و آگہی میں گزرے ہوں اگر اس کی بامعنی گفتگو، مخصوص تعلیم اور معیاری خطابت کو یکجا کیا جائے تو بھی دفتر کے دفتر تیار ہوجائیں ، ہر گھر میں کتابوں کے طومار اور انبار لگ جائیں ، مگر آپؐ کے ارشاداتِ مبارکہ کی تعداد گنی چنی اور ان میں خطبات کا حصہ محدود، یہ زندہ شہادت ہے ارشادات مبارکہ کی جامعیت اور بلاغت کی۔ اکابر دیوبند میں مولانا سید عطاء اللہ شاہ بخاریؒ کی خطابت مشہور، علامہ شبیر احمد عثمانیؒ، مولانا حفظ الرحمن