حیات طیب رحمہ اللہ تعالی جلد 1 |
یات طیب |
|
ٹھہرتا ہے، محض لسّانی اور بولتا ہونا کافی نہیں ۔ جاہلِ محض اور شرعی ذوق سے بے بہرہ حقیقی داعی یا منصب ِدعوت کا اہل نہیں ہو سکتا اور خواہ مخواہ بن بیٹھا تو لوگوں کے لئے گمراہی کا سبب اور خطرہ ٔایمان بنے گا، جیسے نیم حکیم خطرہ ٔجان ہوتا ہے اور پھر اس کی روک تھام یاتو مشکل ہوگی یا فتنہ کا سبب بن جائے گی۔ جیسا کہ آج اس کا مشاہدہ ہورہا ہے ، بہت سے لسّان مگر جاہل واعظ تبلیغی اسٹیجوں پر اُچھلتے کودتے نظر آتے ہیں جو اپنے ذہنی تخیلات کو برنگ ِ شریعت پیش کرکے مخلوقِ خدا کو گمراہ کررہے ہیں ، جس سے عوام میں دھڑے بندیاں قائم ہورہی ہیں اور امت کا کلمہ بجائے متحد ہونے کے زیادہ سے زیادہ منتشر ہوتا چلا جارہا ہے۔ جس سے امت اجتماعی لحاظ سے کمزور اور بے وقار ہوتی جارہی ہے جو تبلیغ کے حق میں قلب ِموضوع ہے ۔ محض اس لئے کہ اس قسم کی تبلیغ صحیح عالم اور صحیح علم سے محروم ہوتی ہے اس لئے دعوتی پروگرام کی اساس وبنیاد علمِ الٰہی کے سوا دوسری چیز نہیں ہو سکتی ، جو تشریعیت کا پہلا مقام ہے۔‘‘(۸۰)اسلامی تبلیغ عالمی ہے اقتباسِ بالا سے دو اہم نکتے واضح ہوئے: (۱) تبلیغ صرف شریعت اسلامیہ کی ہونی چاہئے، غیر شرعی امور کی تبلیغ جائز نہیں ، جیسا کہ اہل بدعت و بدعات و محدثات کی تبلیغ اور مغربی تہذیب کے دل دادہ فحش اور مخربِ اخلاق لٹریچر کی تشہیر کرتے پھرتے ہیں ، شرعاً یہ جائز نہیں ۔ (۲)تبلیغ کا تعلق چوں کہ شریعت سے ہے اور شریعت علمی چیز ہے، اس لئے تبلیغ علماء ہی کو کرنی چاہئے۔ جہلاء کا یہ منصب نہیں ۔ اُدْعُ کے کلمہ سے دوسرا مسئلہ یہ بھی نمایاں ہوتا ہے کہ اسلام صرف تبلیغی مذہب ہی نہیں بلکہ عالمی تبلیغ اور بین الاقوامی دعوت کا مذہب بھی ہے جو کسی ایک وطن یا زمانہ تک محدود نہیں بلکہ تا قیامِ قیامت ہردور، ہر ملک اور ہر قوم کے لئے اس کی دعوت عام ہے ، جس کی وجہ یہ ہے کہ اُدْعُ کا فعل مطلق لایا گیا ہے جو کسی خاص صورت، خاص حالت یا خاص نسبت سے مقید نہیں اور عربیت کامسلمہ ضابطہ ہے کہ فعل کے مطلق لانے کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ وہ تمام احوال وشئون اور سارے ممکن الاجتماع ظروف کے ساتھ جمع ہے اور ساری شانیں اور تقدیریں اس کے عموم واطلاق کے اندر آئی ہوئی ہیں اور وہ ہر تقدیر کے ساتھ جمع ہوکر پایا جاسکتا ہے۔