حیات طیب رحمہ اللہ تعالی جلد 1 |
یات طیب |
|
ان کی دستار فضیلت سے کھلواڑ کیا، مگر مرحوم نے نہ کسی کو جواب دیا، نہ کوئی انتقامی کارروائی کی، نہ غیظ و غضب کا مظاہرہ کیا، بلکہ غم کا ہمالہ اپنے دل پرلے کر اس دنیا و دوں سے منہ موڑ لیا۔عزم مستحکم عزم کے پکے جو بات ذہن مبارک میں آئی وہ ذہن ہی کی امانت نہیں رہی تمام حدود و قیود کو پھلانگتے ہوئے عمل کی دنیا تک پہنچی جس با ت کو صحیح سمجھاگیا ، اس پر عمل کے عزم مصمم نے بڑوں بڑوں کو سبق سکھایا۔ جو اس تردد کاشکار رہتے۔ ع ارادے باندھتا ہوں توڑ دیتا ہوں کہیں ایسا نہ ہو جائے کہیں ویسانہ ہوجائے اس ایک پختہ عزم او رمصمم ارادہ کو محسوس شکل میں کوئی دیکھ سکاہے تو وہی شخص دیکھ سکا جس نے حکیم الاسلاؒم کو اپنے عہد میں دیکھا۔ مفتی فضیل الرحمن ہلال عثمانی صاحب تحریر فرماتے ہیں : مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ ۱۹۸۰ء میں جب حضرت حکیم الاسلامؒ مالیر کوٹلہ تشریف لائے، میں نے ایک پروگرام کے متعلق درخواست کی اور اس کو آپ نے قبول فرما لیا، پورے پروگرام کے اشتہارات کی کتابت کروا کے میں دیوبندپہنچا تو دیکھا کہ دارالعلوم میں شورش کا آغاز ہوچکا ہے، یہ اسی شورش کا ایک سلسلہ تھا جس نے آخر سقوط دارالعلوم کی بدنما شکل اختیار کرلی اور جس حادثے سے آج بھی دل زخمی محسوس ہوتے ہیں ۔ احاطۂ دارالعلوم میں نعرے بازیاں ہورہی تھیں ، میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ میں نے آپ کے پروگرام کے اشتہارات کتابت تو کروالئے ہیں ، ابھی چھپے نہیں ہیں اور یہاں حالات پراگندہ نظر آرہے ہیں ، ایسا نہ ہو کہ پروگرام منسوخ کرنا پڑے۔ حضرت نے پورے اعتماد اور سکون سے فرمایا کہ نہیں ، میں انشاء اللہ وقت پر پہنچوں گا،تم اشتہارات چھپوا لو، اس کے بعد دوسرے وقت میں پھر حاضر ہوا اور میں نے کچھ شک کا اظہار کیا کہ پتہ نہیں حالات کیسے ہوں اور آپ تشریف لاسکیں کہ نہیں ، حضرت حکیم الاسلامؒ نے پورے سکون کے ساتھ فرمایا کہ نہیں میں پہلے ہی آجائوں گا، تم اشتہار چھپوا لو اور اطمینان رکھو، چنانچہ یہی ہوا کہ حضرتؒ مقررہ تاریخ سے پہلے ہی تشریف لائے اور کئی روز تک یہاں بڑے اطمینان کے ساتھ قیام فرمایا۔‘‘ (۳۸)