حیات طیب رحمہ اللہ تعالی جلد 1 |
یات طیب |
|
مایم و فتادگی و دوری او بر در قرب بے گماں رفت پایاب نمود منزلِ ہجر قطرہ سوئے بحرِ بے کراں رفت پابندِ ہوائے شوق گشتہ ذرہ سوئے آفتاب جاں رفت رحمت بہ تن و روانِ تو باد اے آں کہ زجان بہ جانستاں رفتدعوت آم سردھنہ میں اس بار سفرِ سردھنہ میں صعوبتِ سفر کافی پیش آئی، کئی جگہ کار خراب ہوئی، کہیں رکشا لینی پڑی، کہیں پیدل چلنا پڑا، بالآخر دو گھنٹے کا سفر چار چھ گھنٹوں میں پورا ہوا اور تاریخی بن گیا، جس کا ذکر ذیل کی نظم میں کرتے ہوئے دعوتِ انبہ اور آم خوری کا نقشہ کھینچا گیا ہے۔ بہت ہی سر ُدھنے سے سر دَھنے تک پہنچ پائے بفضل ایزدی ہم مشقت رہ گذر کی منتظر تھی کہ الجھیں اُس کے کانٹوں سے ذرا ہم لگا دامن تو کانٹوں نے بصد شوق کیا آگے کو بڑھ کر خیر مقدم بگڑ بیٹھی اچانک کار اپنی لگی رکنے مکرر اور پیہم چلی کار اور بیکاروں کی مانند رہی کچھ دیر رک رک اور تھم تھم بگڑ کردی پھر اک پرزے نے آواز کہ اب ممکن نہیں منزل کا تقدم غرض موٹر کا باطن کچھ خفا تھا مگر اس میں خفا تھا شے تھی مبہم سڑک کا رخ بھی کافی پر جفا تھا کہ جس سے پڑ گئے تھے کار میں خم کھلی گاڑی تو رخنے کھل گئے سب کہیں تب جا کے آیا کار میں دم چلی تب سیدھی سادھ کر سیدھ لیا بس سردھنے آکر ہی پھر دم خوشی ہے ناخوشی راہوں کی مٹ کر درِ مقصد پہ با مقصد ہوئے ہم صعوبت راہ کی پاور ہوا تھی جوں ہی منزل نے آکر سر کیا خم کشش سچی تھی اہل سردھنہ کی کہ پہنچے اور پہنچے سر کے بل ہم محبوں ، مخلصوں کی ہے یہ بستی فداکاری ہے جن کی غیر مبہم درِ مسجد سے تامسجد دو رویہ صفیں تھیں مخلصوں کی بستہ باہم کھڑے تھے دوست سب باجمع ضدین دلوں میں آتشِ حب آنکھ میں نم