حیات طیب رحمہ اللہ تعالی جلد 1 |
یات طیب |
|
پورا ہوتا ہے اور قوم کے نونہالوں پر خرچ کردیا جاتاہے۔ قوم کا وہ طبقہ جس پر تعلیمی اخراجات کی گراں باری نے علم کے دروازے بند کردئیے تھے، اس درسگاہ کی آغوش میں ان کی تعلیم و تربیت کے لئے ہمیشہ کھلی رہی ہے، اس لئے اگر یہ کہا جائے تو قطعاً مبالغہ نہ ہوگا کہ دارالعلوم دیوبند ہی وہ تعلیمی درسگاہ ہے جس نے موجودہ دور کے نعرے ’’فری ایجوکیشن‘‘ کو ملک میں سب سے پہلے عملی جامہ پہنا کر آج سے سو سال قبل مثال قائم کردی تھی۔دارالعلوم دیوبند اور جذبۂ آزادی جناب والا! دارالعلوم دیوبند کے بزرگوں نے تعلیم و تربیت اور علم و فضل کے نمایاں اور غیرمعمولی کارناموں کے ساتھ ملک اور قوم کی آزادی کے جذبہ کو تاریخ کے ہر موڑ پر اپنی جان کی بازی لگا کر باقی رکھا ہے جس کے لئے تاریخ کے اوراق شاہد ہیں ، اس سلسلہ میں قومی یکجہتی اور علیحدگی پسندی سے دوری کے جو جذبات اس کے ۱۹۴۷ء سے قبل تھے وہی آج تک بھی ہیں ، اس نے عمل صالح اور صحیح رہنمائی سے کسی وقت بھی قدم پیچھے نہیں ہٹایا، دین و علم کے ساتھ ساتھ اس ملک کے ساتھ ہمیشہ حب الوطنی کا رشتہ قائم رکھا ہے جو آج تک قائم ہے، اس کا جذبہ یہ ہے کہ اس کے فضلاء جہاں قدم قدم پر اپنی آخرت کویاد رکھیں وہیں اس ملک کے لئے ایک سچے خداترس اور روشن ضمیر شہری بھی ثابت ہوں اور ہم یقین کی قوت سے کہہ سکتے ہیں کہ بانی دارالعلوم سے لے کر شیخ الہند تک اور شیخ الہندؒ سے لے کر ان کے شاگردوں اور شاگردانِ شاگرد تک ان ہی دو باتوں کو اپنے دلوں کا جوہر بنائے ہوئے ہیں جو اُن بانیوں کے کاز کی مضبوطی اور نصب العین کے استحکام کی روشن دلیل ہے۔ ہم آخر میں آپ کو خوش آمدید کہتے ہیں اور اس یقین کا اظہار کرنا چاہتے ہیں کہ یہ دارالعلوم پچھلے سو سال کی طرح آنے والے سو سال میں بھی اسلامی علوم کی سربلندی، وطن عزیز کی تعمیر و ترقی،قومی یکجہتی اور انسانیت کی عام بہتری اور خیرخواہی کے لئے سرگرمی سے کام کرتا رہے گا، اوّل و آخر ہمارا سرمایہ اللہ کا نام ہے اور ہم آئندہ کامیابیوں کے لئے بھی اسی نام سے برکت حاصل کرتے رہیں گے۔(۱۱۵) ہم ہیں آپ کے مخلص محمد طیب مہتمم و ارکان مجلس شوریٰ دارالعلوم دیوبند ……v……