حیات طیب رحمہ اللہ تعالی جلد 1 |
یات طیب |
|
مو لانا شمس تبریز خاں ، نیا بھوجپور ،آرہ بہار : مشفق محترم زید مجدہم و لطفہم السلام علیکم و رحمۃ اللہ و بر کا تہ میں آج کل وطن آیا ہو ا ہوں ، جہاں ۱۷؍ جو لا ئی کو ریڈیو سے حضرت حکیم الاسلام رحمۃ اللہ علیہ کے سانحہ ارتحال کی خبر سنی ۔ انا للہ و انا الیہ راجعون ۔ ایتھا النفس اجملی جزعا فان ما تحذرین قد وقعا ادھر کچھ عرصہ سے علالت کی خبروں سے یہ اندیشہ لگا ہو ا تھا ،پھر بھی اللہ کی ذات سے امید تھی کہ حضرت والا مرحوم ابھی ہمارے درمیان رہیں گے مگر ۔ ع اے بسا آرزو کہ خاک شدہ ! خاندان قاسمی پر اس حادثے سے جو گذر رہی ہو گی اور ہم تمام محبان خانوادۂ قاسمی کے دلوں پر جو گذر رہی ہے اس کا اندازہ (ایک ہی علمی خاندان کے افراد ہو نے کے سبب) ہم سب کر سکتے ہیں ۔ دار العلوم کے قضیہ نا مر ضیہ کے سلسلے میں حضرت حکیم الاسلام ؒ وغیرہ کے با رے میں بہت سی نا گفتنی و ناشنیدنی سنتا رہا مگر دل کو ان باتوں کا کبھی یقین نہیں آیا اور حضرت سے عقیدت و محبت بر قرار رہی اور دل ا ن کی نسبت گرامی ، علو ئے نسب و حسب ، شرافتِ طبعی و عالی ظرفی اور بے مثال صبر و تحمل ، وسیع و عمیق علم عالمانہ و حکیمانہ فکر و نظر ، دار العلوم کی نصف صدی سے زائد پر خلوص خدمت اور مسلکِ دا ر العلوم کی حفاظت و اشاعت کا ہمیشہ معترف رہا۔قلب و جگر خصوصاً اس صدمہ سے شق ہورہے ہیں کہ علوم قاسمیہ کا وارث و امین نہیں رہا اور مسلک دارالعلوم و دیو بندیت اور علوم اسلامیہ کا حکیم نکتہ داں ، ہمارے درمیان سے اٹھ گیا، جس نے نئے حالات میں برابر زمانے کی رہنمائی کی اور مسلک حق کو واضح اور روشن رکھا ۔ خبر سنتے ہی ایصال ثواب کیا اور انشاء اللہ حسب تو فیق آئند بھی کر تا رہو ں گا ، حضرت مرحوم سے مجھے شرف تلمذ بھی حاصل ہے ، میں نے ان سے حجۃ اللہ البالغۃ کا در س لیا تھا ۔ ……v……