حیات طیب رحمہ اللہ تعالی جلد 1 |
یات طیب |
|
حلم و بردباری مہتمم صاحبؒمرحوم کے اوصاف خصوصی میں حلم تھا، جس کی نظیر و مثال صدیوں کے اربابِ انتظام میں نہیں ملتی، تصور کیجئے تین سو کا عملہ ان کے ساتھ تھا، جس میں اچھے بھی تھے، برے بھی تھے، فرض شناس بھی تھے اور لاابالی بھی، خیر بھی وجود میں آتا اور شر بھی، مگر کیا مجال کہ حضرت مہتمم صاحبؒ کے حلم میں کوئی فرق پیدا ہو، مخالفتوں کا طوفان ہزاروں میل کی رفتار سے اٹھا اور ان سے مسلسل ٹکراتا رہا، مگر ان کے حلم میں ذرہ برابر کمی نہیں آئی، ایک شقی نے جب کہ یہ پچاسی سال عمر سے گزر رہے تھے اور حضرت زکریا علیہ السلام کے لہجہ میں قد بلغت من الکبر عتیا (یعنی بڑھاپے کی وجہ سے ہڈیوں میں بھی گودا نہ رہا کا پیکر بنے ہوئے تھے) ایک بے سرو پا نہیں بلکہ فحش داستان نہایت متعفن لب و لہجہ میں اپنے اخبارمیں شائع کرکے شقاوت ازلی کا مظاہرہ کیا تو دیوبندکے دو نامور صحافی حضرت کے حلم کا امتحان لینے کے لئے یہ اخبار لے کر سیدھے ان کی خدمت میں پہنچے، اخبار ان کے ہاتھوں میں تھا، عادت یہ تھی کہ جو چیز پڑھنے کو ملتی تو اس کو پوراپڑھ لیتے، مصروفِ مطالعہ ہوگئے، پورا مضمون پڑھ ڈالا، صحافی ان کے چہرہ و بشرہ کا جائزہ لیتے رہے، مگر کیا مجال کہ چہرے پر آثارِ غضب نمایاں ہوں یا پیشانی پر تلخ احساسات کی کوئی لکیر پڑی ہو، مطالعہ سے فراغت پر گردن اٹھی اور لب ہائے نازک پر وہی دلنواز مسکراہٹ کھل گئی، دریافت فرمایا کہ یہ اخبار کچھ بک بھی جاتاہے ؟ دونوں نے عرض کیا کہ بکتا ہے اور پڑھا جاتاہے۔ اسی وجہ سے تشویش پید اہوئی آپ کی خدمت میں تردید کے لئے حاضر ہوئے، مگر دونوں کی توقعات پر نہ آنے والے جملہ ارشاد فرماکر برف کے تودے کے تودے گرادئیے۔ ’’بھائی یہ میری کتنی بڑی سعادت ہے کہ لوگ مجھے گالیاں دے کر اپنا پیٹ پال رہے ہیں اور مجھے مفت کا ثواب مل رہا ہے۔‘‘غیبت سے اجتناب غیبت بدترین اخلاقی بیماری ہے، جو ہمیشہ اخلاقی جرأت کی کمی کے باعث وجود میں آتی ہے۔ اگر انسان حق گوئی اور صاف گوئی کی صفت سے آراستہ ہو تو غیبت جیسی اور بھی بہت سی اخلاقی بیماریاں انسان سے دور رہتی ہیں ۔ ظاہر ہے کہ جوشخص بلاخوفِ لومۃ لائم و بے لاگ اور ڈنکے کی چوٹ پر اپنی بات کہہ سکتا ہے اسے پیٹھ پیچھے کہنے کی ضرورت نہیں ہوتی اور جو شخص اس جرأت سے محروم ہو وہ ہمیشہ غیبت کا سہارا لیتا ہے۔