حیات طیب رحمہ اللہ تعالی جلد 1 |
یات طیب |
|
سڑکوں پہ ہیں دو رُویہ صنوبر جمے ہوئے یا سروقد نہیں سرو کے پودے کھڑے ہوئے اشجار کی قطار ہے دیوار سبزہ زار دیوار ہائے سبز سے سڑکیں ہیں صد بہار جن منظروں کی راہ بھی ہو منظر جمیل ان منظروں کا کیا ہی ملے گا کہیں مثیل سرو اور صنوبروں کی یہ دیوار سبزہ زار خود راہ بھی ہے خود ہی ہے منزل بھی پربہار بنگلے کنار آب ہیں باغات میں نہاں ہے جنتوں میں تحتہا الانہار کا سماںآب وہوا آب رواں کے چشمے نہروں کے روپ میں ٹھنڈی ہوا کے جھونکے ہیں سورج کی دھوپ میں برفانی آب اور ہوا مشک بیز ہے بردو سلام کی یہ فضا لطف خیز ہے آب وہوا کا اس کی ہے صحت سے ساز باز آپس میں جیسے دونوں ہوں ہمزاد وہم نزاد مشّاطۂ بہار ہے یا زعفراں بعطر مہکتی ہے رات دن جو ہوا کے بدن پر عطر ہر ایک اس ہوا سے ہے گل اور گلبدن روئیں تنی کا نام نہیں سب ہیں سیم تن آب خضر کا چشمۂ حیواں ہوا لقب وادی اگر یہ گلشن حیواں ہو کیا عجب؟ آسودگی وعیش رواں یاں کا ہر مزاج ہر غم کا ہر الم کا نہاں جس میں ہے علاج ہر اک ادا نے حسن سے پایا ہے امتزاج اک اک ادا نگہ سے طلب کرتی ہے خراجنہریں ، ندیاں اور چشمے سینہ سے ہر پہاڑ کے چشمہ رواں دواں جیسا کہ دودھ سینۂ مادر سے ہو رواں اس دودھ ہی سے پلتے ہیں اطفال کوہ ودشت کونپل سے شاخ شاخ سے بنتے ہیں پھر درخت ہر چشمہ ابتدا میں ہے نالی کا ایک نشاں بنتا ہے بڑھ کے پھر وہی دریائے بیکراں جھیلیں عمیق شیشہ کی مانند ندیاں محسوس ہوتی ہیں جو سمندر کی بیٹیاںآبشار گرتے ہوئے زمیں پہ چاندی سے آبشار موتی سے قطرے جن پہ ہیں ہر سمت سے نثار سیمیں ردا پہ حاشیۂ دُرِّ شاہوار چادر بھی آبدار ہے موتی بھی آبدار