حیات طیب رحمہ اللہ تعالی جلد 1 |
یات طیب |
|
دوسرے مسلمانوں نے چالیس پچاس لاکھ کی تعداد میں دارالعلوم دیوبند کے اجلاس میں شرکت کی۔ افتتا حی اجلا س سے خطاب کرتے ہو ئے دارالعلوم کے ۱۱۷؍سالہ دور کی تاریخ پر روشنی ڈالی۔ خطبہ استقبالیہ، اخبارات و رسائل میں مفصل شائع ہوا ہے۔اجلاسِ صدسالہ دارالعلوم دیوبند کے قیام کو اس وقت تقریباً ڈیڑھ سو سال سے زائدکا عرصہ ہو چکا ہے۔ مدارس دینیہ عربیہ کا ہمیشہ سے دستور رہا ہے کہ وہ ہر سال اپنے فضلاء کو ڈگری دینے کے ساتھ ان کی دستار بندی یعنی ان کے سرپرپگڑی باندھتے ہیں ۔ جو اس بات کی دلیل ہوتی ہے کہ یہ طالب علم اب پڑھانے کے قابل ہوگیا ہے اوراس کے اساتذہ اس طالب علم کی نیک چلنی پر مطمئن ہیں ۔ دارالعلوم میں پچھلے ڈیڑھ سو سال میں تین دفعہ اس قسم کی تقریبات منعقد ہوئی ہیں ۔ جن میں فضلاء دارالعلوم کی دستار بندی کی گئی۔ سب سے پہلے جلسہ میں شیخ الہند حضرت مولانا محمود حسن صاحبؒ اور دیگر اکابر علماء کرام کی دستار بندی کی گئی تھی اور دوسرے جلسے میں جو کہ اس کے ۲۵؍سال بعد ہوا تھا حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانویؒ، شیخ الاسلام علامہ شبیر احمد عثمانی ؒ، علامہ محمد انور شاہ کشمیریؒ اور مولانا سید حسین احمد مدنی ؒ جیسے مشاہیر علماء کی دستار بندی کی گئی تھی۔ ان دو جلسوں کے بعد حکیم الاسلام حضرت مولانا محمد طیب صاحب مرحوم کی سعی و کاوش سے ان کے آخری دور اہتمام میں مارچ ۱۹۸۰ء میں فضلاء دارالعلوم دیوبند کی دستار بندی کے لیے یہ صدسالہ تقریبات منعقد کی گئی تھیں ۔جس میں تقریباً ۱۷؍ہزار افراد کو سندِ فضیلت دی گئی اور ان کی دستاربندی کی گئی۔ یہ تقریبات ۲۱؍مارچ تا ۲۳؍مارچ تین روز تک جاری رہیں اور ان صد سالہ تقریبات دارالعلوم دیوبند میں تمام ممالک اسلامیہ سے فضلاء دیوبند اوردیگر معزز حضرات اور علماء کرام، نمائندگانِ حکومت اور سفراء عالم اسلام نے شرکت کی اور بڑے بڑے ممالک اسلامیہ کے سربراہوں کے پیغامات پڑھ کرسنائے گئے۔ تقریبات کی ابتداء پاکستان سے