حیات طیب رحمہ اللہ تعالی جلد 1 |
یات طیب |
|
مکتوبات ’’مکتوبات‘‘ شخصیت کی ذہنی کیفیات، اخلاق و اعمال، سیرت و سلوک اور اس کی اندرونی صلاحیتوں کے عکاس ہوتے ہیں ۔ غالب نے کہا تھا ؎ نقش فریادی ہے کس کی شوخی تحریر کا کاغذی ہے پیراہن ہر پیکر تصویر کا غالب کے مکتوبات ان کے ہم پلّہ اور معاصر شعراء کے مکتوبات میں غالبؔ ہی کی طرح اپنا ایک ممتاز مقام رکھتے ہیں ۔ ’’غالبیات‘‘ کے ماہرین و ناقدین کے کانوں سے اگر غالب کے مکتوب کا ایک فقرہ بھی ٹکرا جائے تو آنکھیں بند کرکے بہ آسانی بتادیں گے کہ یہ غالب کا اسلوب، غالب کا طرز بیان اور غالب کا فکرو فلسفہ ہے،یہ ایک مثال ہے۔ مکتوبات کے مضمون اور اسلوب سے مکتوب نگار کے تعین اور اس کی شخصیت کی علمی دنیامیں ، آئیے تو اس دعویٰ کی ایک نہیں سینکڑوں دلیلیں مل جائیں گی۔ حکیم الاسلامؒ مکتوب نگاری کے باب میں بھی سب سے منفرد اور ممتاز ہیں ۔ آپ کے مکتوبات کے دستیاب اور مطبوعہ ذخیرہ سے چند ایک کا انتخاب اس باب میں بطور نمونہ پیش کیا جارہا ہے ورنہ آپ کا ہر مکتوب اپنی جگہ پر علم و دانش کا ایک خزانہ عامرہ ہے۔ حکیم الاسلامؒ کے مکتوبات میں زیادہ تر علمی و دینی سوالات و استفسارات کے جوابات ملتے ہیں جو سیکڑوں کتابوں کی ورق گردانی کے بعد بھی نہیں مل پاتے، جواب کا اسلوب ’’مفتیانہ‘‘ کے بجائے حکیمانہ و شارحانہ ہے اور انتہائی مسکت و مدہش ہے۔ جناب مولانا محمد وصی صاحب ضلع دربھنگہ کے رہنے والے ہیں جناب نے کلام پاک کی کچھ سورتوں اور آیات کی بالکل جدید تفسیر لکھ کر حضرت مہتمم صاحبؒ کی خدمت میں آپ کی رائے معلوم کرنے کے لئے بھیجی تھیں ۔ مولانا محمد وصی صاحب کی تفسیر کا نمونہ درج ذیل ہے: لکھتے ہیں کہ: اِذَا جَائَ نَصْرُ اللّٰہِ سے مراد مفید ہوا اور بارش ہے جس کو دیکھ کر لوگ فوج در فوج مسرت کے ساتھ اللہ کے دین و کام میں جو ’’زراعت‘‘ ہے جس کو خدا نے ’’نَحْنُ الزَّارِعُوْن‘‘ کہہ کر اپنا کام اور دین قرار دیا ہے۔ خوشی کے ساتھ لوگ اس میں داخل ہوجاتے ہیں اور مسرت کا اظہار لفظ اَفْوَاجاً سے