حیات طیب رحمہ اللہ تعالی جلد 1 |
یات طیب |
|
(۲) عملی اطاعت شعاری ظاہری طاعت و عبودیت، یعنی اس بادشاہ کے سامنے انتہائی تذلل و عبودیت اور اپنے اپنے متعلقہ قانون پر بحیثیت عبادت عمل۔کُلٌّ لَّہٗ قَانِتُوْنَ۔ اس لئے ضابطۂ حکومت کی رو سے آسمانی بادشاہت کے سات رکن ثابت ہوئے جو گویا سبع سنابل یعنی سات خوشے ہیں کہ انہی سات سے سلطنت کی کشت زار کے سارے ہی پھل پھول اُگ رہے ہیں ، پانچ حکومت سے متعلق ہیں : اقتدارِاعلیٰ، میزانِ اعلیٰ، ملاء ِاعلیٰ، مقصد ِاعلیٰ، مصلحتِ اعلیٰ اور دو رعایا سے متعلق ہیں : باطنی انقیاد وتسلیم اور ظاہری طاعت و عبودیت، جن کو شرعی اصطلاح میں ایمان و اسلام کہتے ہیں اور اسی کو حدیث ِ معاذ میں حقوق کے نام سے ذکر کیا گیا ہے۔ پس اس پوری تالیف میں اصولی یا ضمنی عنوانات کے تحت میں جس قدر بھی مظاہر سلطنت و شوکت یا محاکم نظام سلطنت یا مقتضیاتِ سلطنت مذکور ہوئے وہ سب انہی کے آثار و لوازم ہیں اور اُن سب میں انہی سات اصول کی روح کام کر رہی ہے۔(۱۰۱)کثرتِ رائے اور قوتِ رائے طرزِجمہوری میں کثرتِ رائے کووزن دیا جاتا ہے، جب کہ اسلامی نظامِ حکومت میں اصل وزن وِژن (Vision) اور قوتِ رائے کا ہوتا ہے۔ حکیم الاسلامؒنے ذیل میں ان آیاتِ کریمہ کا زیادہ سے زیادہ احاطہ فرمایا ہے جن سے یہ ثابت ہوتاہے کہ اسلامی نظامِ حکومت میں کثرت رائے کی اہمیت نہیں قوتِ دلیل کی اہمیت ہے۔ ’’ اس سے کثرتِ رائے کو فیصلہ کا بنیادی اصول قرار دے دیئے جانے کی جڑ کٹ جاتی ہے، یعنی امیر منتخب شوریٰ کی آراء میں رائے شماری کر کے اکثریت و اقلیت کا پابند نہ ہوگا بلکہ قوتِ دلیل کا پابند ہوگا۔ پس قوتِ دلیل اساسی چیز ہوگی نہ کہ کثرتِ رائے کہ زیادہ افراد کا کسی ایک جانب آجانا اسلام میں حق وباطل کے فیصلہ کے لئے کوئی بنیادی حیثیت نہیں رکھتا۔ اس لئے فی نفسہٖ اکثریت کو اسلامی قانون (قرآن حکیم) نے کوئی بھی وقعت نہ دیتے ہوئے حد درجہ غیر اہم ٹھہرایا ہے اور دین و ملک اور دیانت و سیاست کے تمام ہی دائروں میں نفس اکثریت کی بے وقعتی اور بے اعتباری کھلے لفظوں میں ظاہر کی ہے۔ قرآن حکیم نے ایک سے زائد جگہوں میں فرمایا: