حیات طیب رحمہ اللہ تعالی جلد 1 |
یات طیب |
|
پڑھائی۔ دیوبند میں نماز جنازہ میں شریک ہونے والوں کی اتنی بڑی تعداد شاید کسی نے دیکھی نہ سنی۔ احاطۂ مولسری سے لے کر دیوان دروازہ تک تل دھرنے کی جگہ نہ تھی، جنازہ کو کاندھا دینے کے لئے بندگانِ خدا کا سیلاب امنڈ پڑا، چارپائی میں لمبی لمبی بلیاں باندھی گئیں تھیں اور ایک ساتھ کئی کئی آدمی کاندھا دے رہے تھے، اس کے باوجود بھیڑ کے ہاتھوں قبرستان قاسمی تک پہنچتے پہنچتے خاصا وقت لگ گیا۔ تدفین تک موسم میں اتنی خنکی آگئی تھی کہ رات کے وقت رضائیاں اوڑھنے کی نوبت آئی، جس کو اہلِ دیوبند کبھی فراموش نہیں کرسکیں گے۔قبرستانِ قاسمی سبحان اللہ! کیسے کیسے اساطینِ علم اور اقلیمِ معرفت و کمال کے شاہانِ بے کلاہ، اس فردوسِ ارضی میں آسودۂ خواب ہیں ۔ حکیم الاسلامؒ کی آخری فرودگاہ بھی یہی ’’قبرستان قاسمی‘‘ ہے۔ سوانح قاسمی کے مؤلف مولانا سید مناظر احسن گیلانیؒ بزرگانِ دیوبند کی اسی آخری آرام گاہ کی منظر کشی کچھ اس طرح کرتے ہیں : ’’سچ تو یہ ہے کہ سہ پہر پیما گنبدوں ، فلک بوس قبّوں میں بھی آج شاید سکینت و طمانیت کی خنکیاں مشکل ہی سے میسر آسکتی ہیں ، جو اِن کچی، خام اور سادہ قبروں والوں کو اس قبرستان میں میسر ہے۔‘‘ اس خطۂ صالحین میں سب سے پہلے حکیم الاسلامؒ کے جد امجد، دارالعلوم دیوبند اور فکرِ دیوبند کے مؤسس، حجۃ الاسلام حضرت الامام محمد قاسم النانوتوی قدس سرہٗ آسودۂ خواب ہوئے، انہیں کی وجہ سے سرزمینِ دیوبند کی نامی گرامی شخصیت اور حضرت نانوتویؒ کے عقیدت مند ومعالج جناب حکیم مشتاق احمد صاحبؒ نے یہ خطۂ زمین بانیٔ دارالعلوم دیوبند کے خانوادہ کے لئے وقف کیا۔خانوادۂ قاسمی کے اسلاف نے اپنی خاندانی وسعتِ فکری کی بنیاد پر اس قطعۂ اراضی کو عمومیت عطا کرکے سلاطین علم و عمل کی آخری آماجگاہ بنادیا، آج بھی اس ’’قاسمی قبرستان‘‘ کی تولیت اسی خاندان کے فردِ فرید مولانا محمد سفیان قاسمی صاحب کے پاس ہے۔ پھر یکے بعد دیگرے شیخ الہند حضرت مولانا محمود حسن دیوبندیؒ سابق شیخ الحدیث دارالعلوم دیوبند، مفتی اعظم حضرت مولانا مفتی عزیز الرحمن عثمانیؒ، حضرت مولانا حبیب الرحمن عثمانی صاحبؒ سابق مہتمم دارالعلوم دیوبند، شیخ الادب حضرت مولانا اعزاز علی صاحبؒ، حضرت مولانا سید حسین احمد مدنیؒ، امام المنقول والمعقول حضرت علامہ محمد ابراہیم بلیاویؒ جیسی بلند پایہ علمی شخصیات حجۃ الاسلام الامام محمد قاسم النانوتویؒ کے جوار میں مدفون ہوتی رہیں ، خدا معلوم کہ اس خاک میں اب تک کیسے کیسے جبالِ علوم سماچکے ہیں ، کتنے ہی اہلِ کمال کو جوارِقاسمی کی سعادت میسر آئے گی اور کتنے ہی اس شہر خموشاں سے حشر میں اٹھیں گے؟ یہاں لوحِ مزار کے سوا کوئی نشان نظر نہیں آتا اور نظر بھی کیوں آئے؟ یہاں خاکساری و