حیات طیب رحمہ اللہ تعالی جلد 1 |
یات طیب |
|
سپاس نامہ یہ سپاس نامہ منتظمین اجلاس سیرت مدرسہ عالیہ اسلامیہ میل وشارم کی طرف سے مورخہ ۹؍نومبر ۱۹۵۷ء کو حضرت حکیم الاسلامؒ کی خدمت میں پیش کیا گیا ۔ ضیفنا المکرم! خداوند ذوالجلال والاکرام کا فضل و احسان ہے کہ آں جناب اس چھوٹے سے اور دور افتادہ قصبہ میں قدم رنجہ فرما ہوئے۔ اللہ رب العزت کے اس احسانِ عظیم اور اپنی سعادت و خوش نصیبی پر ہم بے حد مسرور و محفوظ ہیں اور اس زحمت فرمائی پر آں جناب کی خدمت میں سپاس عقیدت پیش کرتے ہیں ۔ آج حالت یہ ہے کہ ہر طرف الحاد و زندقہ کی آندھیاں چل رہی ہیں ، دہریت و خداناشناسی کا سیلاب امنڈ رہاہے، اخلاق و روحانیت پر ہر طرف سے حملے ہو رہے ہیں ۔ ایمان و ایقان کے بجائے جہل و اوہام اور شکوک و ظنون کا دور دورہ ہے۔ غرض آج مسلمانانِ عالم جس نازک اور پرآشوب دور سے گذر رہے ہیں اس کی نظیر اسلام کی صدیوں کی تاریخ میں شاید نہ مل سکے۔ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ پوری انسانی تاریخ میں کوئی ایسا دور نہیں گذرا جس میں ہمارے دور سے زیادہ تغیرات واقع ہوئے ہوں اور مادہ پرستی اپنے اس عروج پر پہنچی ہو کہ ہر طرف دین و دینی معتقدات کے ساتھ تضحیک و استہزاء کا بازار گرم ہو، ایسے نازک اور پرشور دور میں سفینۂ اسلام کی ناخدائی صرف آپ جیسے علماء حق کا ہی حصہ ہے۔ حضرت والا! ایک ایسے ادارہ کے مہتمم اعلیٰ ہیں جو دنیائے اسلام کی عظیم الشان اور مایۂ ناز دینی درسگاہ ہے اور جس کے بانی محترم آں جناب کے جدامجد قاسم العلوم والخیرات، حجۃ الاسلام حضرت مولانا محمد قاسم صاحب نانوتویؒ ہیں ، اسی آفتاب علم و عرفان اور روحانیت کی شعاعیں آج دنیا کے چپہ چپہ اور گوشہ گوشہ کو روشن و منور کر رہی ہیں ، آج عالم اسلام میں عموماً اور ہندو پاکستان میں خصوصاً جو کچھ دین داری نظر آرہی ہے یہ اسی ادارہ کا علمی اور روحانی فیضان ہے جن اسلاف و اکابرنے اس شجرہ طیبہ کو اپنے مبارک ہاتھوں سے لگایا، جناب والا ان ہی اسلاف کی حقیقی یادگار ہیں اور یہی وجہ ہے تبلیغ دین اور اصلاح کی جدوجہد میں حضرت والا کا مقام انفرادی اور خصوصی اہمیت کا حامل ہے۔ حضرت والا! آپ سپہر علم و حکمت کے نیر درخشاں اور راہ معرفت و صداقت کے روشن ستارے ہیں ، آں محترم کے قدوم میمنت لزوم سے سرزمین و شارم رشکِ جناں بنی ہوئی ہے۔ ہمارے قلوب مسرور و شاداں ہیں کہ ہم خدام کو حضرت والا کی زیارت نصیب ہوئی ع آمدن آں یارے کہ ما می خواستیم