حیات طیب رحمہ اللہ تعالی جلد 1 |
یات طیب |
|
مولانا حکیم ضیاء الدین صاحبؒ اس قصبہ رامپور میں مولانا حکیم ضیاء الدین صاحبؒ کا خاندان ممتاز شمار ہوتا رہا ہے۔ اس خاندان کے اہل علم اور اہل دل کافی شہرت رکھتے تھے۔ خود مولانا حکیم ضیاء الدین صاحبؒ، حضرت محمد ضامن شہیدؒ کے ہاتھ پر بیعت تھے اور آپ کے ارشد خلفاء میں شمار ہوتے تھے۔ اس خاندان کے مورثِ اعلیٰ حضرت شیخ سالار بندگی تھے جن کا رام پور میں مزار موجود ہے۔ بسلسلہ نسب حضرت ابوایوب انصاریؓ صحابی رسولBتک پہنچتا ہے۔ جو مدینہ منورہ کے قبیلہ خزرج سے تھے اور جہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اولاً قیام فرمایا تھا۔ مولانا حکیم ضیاء الدین صاحبؒ کے کوئی اولاد نہیں ہوئی ان کے حقیقی بھائی جناب حاجی علائو الدین صاحب تھے اس خاندان کی نسل انہی سے چلی، ان کے تین صاحبزادے تھے۔ مولانا حافظ حکیم احمدصاحبؒ رئیس رامپور، مولوی محمد صاحب مرحوم اورمولانا حافظ محمود صاحبؒ فاضل دیوبند و وزیرریاست اندر گڑھ (راجپوتانہ) مولانا محمود صاحب نے یہیں دارالعلوم دیوبند میں تعلیم پائی تھی اورآپ کو حضرت شیخ الہند مولانا محمود صاحبؒ اورحضرت مولانا مفتی عزیز الرحمن عثمانیؒ سے خصوصی شرف تلمذ حاصل تھا اورربط و علاقہ قوی تھا۔مولانا محمود صاحبؒ مولانا محمود صاحب ؒکی شادی مشہور بزرگ حضرت شاہ ابوالمعالی قدس سرہٗ انبیہٹہ ضلع سہارنپور کے خاندان میں حضرت شاہ صادق احمد صاحب انبیٹھویؒ کی دختر نیک اختر سے ہوئی تھی۔ حضرت شاہ ابوالمعالیؒ کا خاندان انبہیٹہ میں اہل علم و فضل اور اہل دل کا ممتاز خانوادہ رہا ہے، حضرت مولانا خلیل احمدصاحبؒ محدث سہارنپوری خلیفہ حضرت گنگوہیؒ اسی خاندان کے چشم و چراغ تھے۔ انہی مولانا حافظ محمود صاحب رامپوریؒ کی صاحبزادی حنیفہ خاتون سے حضرت مولانامحمد طیب صاحبؒ کا رشتہ طے پایاجو ان کی اکبر اولاد تھی۔ یہ رشتہ اس وقت کے صدر المدرسین دارالعلوم دیوبند حضرت شیخ الہند مولانا محمود حسن صاحب قدس سرہٗ لے کر رامپورپہنچے، چونکہ حضرت شیخ الہندؒ کا تعلق بھی وہاں سے گہرا تھا اورمولانا محمود کے بھائی حکیم احمدصاحب سے فرمایا کہ بھائی، میں اس وقت نائی کی حیثیت سے طیب کا رشتہ آپ کی بھتیجی سے لے کرآرہا ہوں یہ رشتہ ان حضرات نے بڑی خوش دلی کے ساتھ منظور کر لیا، بلکہ دلی مسرت کا اظہار بھی کیا۔ بات طے پانے کے بعد یہ رشتہ تین چارسال لگا رہا۔