حیات طیب رحمہ اللہ تعالی جلد 1 |
یات طیب |
|
موضوع ’’مادہ اور اس کے عوارض ذاتیہ‘‘ سے بحث کرناہے اور بس جو بھی مادیات میں زیادہ سے زیادہ منہمک رہ کر ان کے خواص و آثار سے کام لینے والا ثابت ہوگا وہی سب سے بڑا سائنس دان اور بہترین ماہر سائنس کہلائے جانے کا مستحق ہوگا۔(۷۲)دور جدیدمیں فکر اسلامی کی تشکیل جدید کا واحد طریق عمل یہ دورِ جدید کا انتہائی حساس اور سلگتا ہوا موضوع ہے، اس کو ذرا غور سے پڑھئے۔ ’’آج کے اس سائنسی اور سریع رفتار صنعتی و علمی ترقیات کے دور نے زندگی کے ہر شعبہ میں نت نئے مسائل پیدا کردئیے ہیں ، جن کو فقہی اصطلاح میں ’’نوازل‘‘ کہا جاتا ہے۔حکیم الاسلامؒ کے عہد میں یہ مسائل اتنے زیادہ نہیں تھے، مگر ان کی خداداد بصیرت، وسعت نظر اور دور اندیشی قابل دید ہے کہ انہوں نے ایسے احوال کا ادراک کرتے ہوئے ’’فکر اسلامی کی تشکیل جدید‘‘ کا نظریہ بڑے کھلے ذہن سے پیش کیا ہے اور اس سلسلہ میں علماء دین کے ساتھ علماء دنیا کے اشتراک سے ’’فکر اسلامی کی تشکیل جدید‘‘ کے عمل کا مشورہ دیا ہے اور ساتھ میں کچھ تحفظات اور شرائط کا بھی ذکر کیا ہے۔‘‘ اس دور میں اس کی شدید ضرورت ہے کہ اسلامی اصول، اسلامی مزاج اور نبوت کا منہاج بجنسہٖ قائم رکھ کر جس میں دیانت و سیاست اور عبادت و مدنیت بیک وقت جمع ہے۔وقت کے مسائل کو نئی تشکیل وترتیب سے نمایاں کرکے نئے حوادث میں قوم کی مشکلات کا حل پیش کیا جائے تو یہ وقت کے تقاضوں کی تکمیل ہوگی جب کہ اس میں فقیہ المزاج شخصیات، اسلامی اصول کی روشنی اور جزئیات عملیہ کی رعایت، اسلامی مزاج کی برقراری،سلف صالحین کا اسوہ، مرادات خداوندی کے ساتھ تقید، رضاء حق کی پاس داری، اجتماعی اصلاح و فلاح، اخروی نجات کا فکر وغیرہ کی حدود قائم رکھی جائیں گی تو بلاشبہ ’’فکر اسلامی کی تشکیل جدید‘‘ دینی ہی رنگ کے ساتھ منظر عام پر آجائے گی، مگر اسی کے ساتھ ان منتخب شخصیات میں جہاں اس دینی فکر اور تفقہ مزاج اور وقت کو بھی پہچانتے ہوں ۔عصری حالات اور وقت کی ضروریات بھی ان کے سامنے ہوں ،علوم عصریہ میں انہیں مہارت و حذاقت میسر ہو، دنیا کی عام رفتار اور آج کے ذہن کو بھی وہ سمجھے ہوئے ہوں اور اس میں ذی فہم اور ذی رائے بھی ہوں کیوں کہ حالات ہی اصل محرک فتاویٰ ہیں ۔ اگر یہ منتخب شخصیات شرعیات کی خوگر ہوں لیکن عصریات سے بے خبر ہوں یا برعکس معاملہ ہو تو ’’فکر اسلامی کی تشکیل جدید‘‘ کا خواب شرمندہ تعبیر نہ ہوگا۔