حیات طیب رحمہ اللہ تعالی جلد 1 |
یات طیب |
|
کی تفصیل آپ اس کتاب میں اپنی جگہ پڑھیں گے۔ آپ کی اہلیہ بھی ماشاء اللہ دین میں ممتاز حیثیت کی مالک تھیں ، اس سلسلہ میں تفصیل حضرت حکیم الاسلام ؒ کے ہی قلم سے ملاحظہ فرمائیں ۔ اپنی اہلیہ کے متعلق تحریر فرماتے ہیں : ’’خود اپنی ذات سے بھی نہایت صالحہ، پابند اوقات اوراپنے معمولات پر مستقیم تھیں ۔ میں ان کے معمولات غبط کی نگاہوں سے دیکھا کرتا تھا اور بسا اوقات ذہن میں یہ تصور بندھ جاتا ہے کہ شاید یہی خاتون میرے لیے بھی نجات کا ذریعہ بن جائے، مرحومہ کو فرائض کی ادائیگی کا حد درجہ اہتمام تھا۔ گھر کے کیسے ہی اہم کام میں مصروف ہوں ۔ اذان کی آواز سنتے ہی ہر کام سے بیگانہ وار اٹھکر اول اوقات میں نماز ادا کیے بغیر مطمئن نہ ہوتی تھیں ۔ ایک ہزار دانے کی تسبیح ہمیشہ ان کے سرہانے رہا کرتی تھی، نماز عشاء کے بعد ایک ہزار بار کلمہ طیبہ اور وقت خواب ادعیہ ماثورہ پڑھنے کا معمول تھا۔ جو سفرو حضر میں جاری رہتا تھا۔ نماز صبح کے بعد تلاوت قرآن کریم اورحضر میں بغیر کسی شدید اور غیر اختیاری مجبوری کے ناغہ نہیں ہوتا تھا۔ حج کا بھی ایک شغف دل میں تھا۔ میری معیت میں سات بار حج و زیارت روضۂ اقدس سے مشرف ہوئیں ۔ حضرت مولانا محمد سلیم صاحب کیرانوی ثم المکیؒ، مہتمم مدرسہ صولتیہ مکہ مکرمہ سے عزیز داری تھی، مکہ میں قیام انہیں کے دولت خانہ پر ہوتا تھا۔ مولانا کے گھرانے کے ہر بچے اور بڑے کو ان سے ایک خاص انس اور علاقہ تھا۔ ہر سال حج کے موقع پر ادھر سے برابر یاد ہوتی اور یاددہانی کہ ہم سب آپ کا انتظار کر رہے ہیں ۔ اسی علاقہ خاص سے حضرت مولانا سلیم صاحب کا مقولہ تھا کہ: ’’جو شخص یہ ثابت کر دے کہ مکہ مکرمہ میں (مولانا) محمد طیب صاحبؒ کا گھرنہیں ہے تو میں اسے ایک ہزار روپیہ انعام دینے کے لیے تیار ہوں ، بہر حال مولانا کا سارا گھرانہ ان سے حد درجہ مانوس تھا اور وہ ان سے مانوس تھیں بالخصوص عزیز محترم مولوی محمد شمیم سلمہٗ ابن حضرت مولانا محمد سلیم صاحب تو خاص طور پر ان کی خاطر داری اور مدارات میں لگے رہتے تھے اور ان سے مرحومہ کو خاص انس تھا اور کہا کرتی تھیں کہ مجھے شمیم پر ایسا ہی پیار آتا ہے جیسے سالم پر‘‘۔ (۲۷)زکوٰۃ کی ادائیگی کا اہتمام ان خوبیوں کیساتھ مرحومہ میں دادو دہش کی خوبی بھی بدرجہ اتم تھی، خود حضرت حکیم الاسلامؒ لکھتے ہیں ۔ ’’حج و نماز اور اوقات کی پابندی کے ساتھ ان میں ادائے زکوٰۃ کا شغف یہ تھا کہ پائی پائی کا حساب کرکے عموماً ماہ رمضان میں زکوٰۃ ادا کیا کرتی تھیں ۔ شہر کے عزیزوں میں سے غرباء اور بالخصوص غریب بیوائوں کی فہرست ان کے سامنے رہتی تھی۔ (۲۸)