حیات طیب رحمہ اللہ تعالی جلد 1 |
یات طیب |
|
پس صحابہ کرامؓ درحقیقت نبوت کا ظل کامل تھے جن کے طبقہ سے نبوت اور کمالاتِ نبوت پہچانے جاتے ہیں ، اس لئے اگر کسی طبقہ کے طبقہ کو بحیثیت طبقہ اللہ و رسولؐ کے یہاں مرضی و پسندیدہ قرار دیا گیا ہے تو وہ صرف صحابہ کرامؓ کا طبقہ ہے جس کی شہادت قرآن اور حدیث نے دی اور ’’رضی اللّٰہ عنہم ورضوا عنہ‘‘ اللہ ان سے راضی اور وہ اللہ سے راضی کی دستاویز رضا ان کے لئے آسما نی کتاب میں تا قیامِ قیامت ثبت کردی ہے۔ کہیں : اُولٰئِکَ الَّذِیْنَ امْتَحَنَ اللّٰہُ قُلُوْبَھُمْ لِلتَّقْوٰی لَھُمْ مَغْفِرَۃٌ وَّ اَجْرٌ عظِیْمٌ ’’یہ وہ لوگ ہیں جن کے قلوب کو اللہ تعالیٰ نے تقویٰ کے لئے خالص کردیا ہے، ان لوگوں کے لئے مغفرت و اجر عظیم ہے۔‘‘ ان لوگوں کے ذریعے ان کے قلوب کی پاکیزگی کی شہادت دی گئی اور کہیں : ’’اُلٰئِکَ ھُمُ الرَّاشِدُوْنَ فَضْلاً مِّنَ اللّٰہِ وَ نِعْمَۃ‘‘ اور کہیں وَالَّذِیْنَ مَعَہٗ اَشِدَّائُ عَلَی الْکُفَّارِ رُحَمَائُ بَیْنَھُمْ تَرَاھُمْ رُکَّعًا سُجَّدًا فرما کر ان کے اخلاق کی برتری ثابت کی گئی اور کہیں اصحابی کالنجوم بایھم اقتدیتم اھتدیتم فرماکر ان میں ہر ہر فرد کو پوری امت کا مقتدی بتلایا گیا جس کی پیروی اور پیروی سے حصول ہدایت میں کوئی ادنیٰ کھٹکا نہ ہو۔(۶۵)جنت عمل کا نہیں ، ایمان کا صلہ ہے علم کلام کا مشہور مسئلہ ہے کہ دخولِ جنت کے لئے ایمان شرط ہے اور اعمال رفع درجات کے لئے شرط کے درجہ میں ہے۔ ذیل میں حکیم الاسلامؒ اسی موضوع پر اپنے انداز میں روشنی ڈالتے ہیں ۔ جنت کا بدلہ ایمان پر ملے گا، عمل پر نہیں ملے گا۔ عمل محض علامت ہے، جس سے ایمان پہچان لیا جائے۔ ورنہ اصل ایمان کا بدلہ جنت ہے، اس کی مثال بالکل ایسی ہے کہ آپ اگر سونا خریدنے کے لئے کسی صراف کی دوکان پر جائیں اور ایک ہزار روپئے کا سونا آپ کو خریدنا ہے تو آپ یہ نہیں کرتے کہ آپ نے ہزار روپئے دئیے، اس نے سونا دیدیا اور آپ لے کے چلے آئے۔ پہلے اسے پرکھتے ہیں کہ اصلی ہے یا نہیں ؟ اس میں کھوٹ ملا ہوا تو نہیں ہے۔ اس کی صورت یہ ہوتی ہے کہ کسوٹی ایک پتھر ہوتا ہے، اس پر گھس کر دیکھتے ہیں ۔ اگر اس پر سفید،چمک دار لکیریں پڑیں ، یہ اس کی علامت ہوئی کہ سونا کھرا ہے تو آپ ہزار روپئے دیدیں گے، سونا لے لیں گے اور اگر میلی اور مٹیالے رنگ کی لکیریں پڑیں تو آپ سمجھیں گے کہ سونا کھوٹا ہے، آپ نہیں لیں گے۔ یہ جو آپ نے سونا خریدا اور صراف کو ہزار روپئے دئیے، یہ ہزار روپئے کیا ان لکیروں کی قیمت تھی، جو