حیات طیب رحمہ اللہ تعالی جلد 1 |
یات طیب |
|
’’میرے والد صاحبؒ علیل ہو کر شفایاب ہوئے تھے، دیوبند سے ایک بڑا مجمع حضرت مولانا حافظ محمداحمد صاحبؒ، حضرت مولانا حبیب الرحمن صاحبؒ، حضرت مولانا اعزاز علی صاحبؒ، علامہ ابراہیم صاحبؒ اور حضرت میاں سید اصغر حسین صاحبؒ وغیرہ مزاج پرسی کو تشریف لائے۔ مولانا طیب صاحب ۲۵؍سالہ بھی ساتھ تھے، بعد مغرب کا وقت تھا، حضرت حکیم صاحبؒ نے فرمایا طیب ایک رکوع سنائو، یاد ہے : ولقد خلقنا الانسان و نعلم ما توسوس بہ نفسہ الٰی آخرہٖ سنایا، سماں بندھ گیا، آنکھیں پرنم ہوگئیں ، میرے کانوں نے یہ خوش لحنی عمر میں پہلی مرتبہ سنی تھی، ساز بھی سوز بھی، دل گداز بھی، نغمہائے دل کش سحاب اندر سحاب بھی، یہ پہلا نقش تھا جو آج بھی تازہ ہے۔‘‘اکابر دیوبند کا تذکرہ اکابر دیوبند کا تذکرہ حکیم الاسلام ؒ کی تحریر،تقریر ،وعظ گفتگو،مجلس ہر ایک کا امتیاز انہوں نے بہت سے بے ناموں اور گم ناموں کو اپنی تحریر وتقریر سے زندگی دی،اکابر دیوبند کے افکار،خدمات، کاموں اور کارناموں کوشہرۂ آفاق بنایا،ان کی پاکیزہ زندگیوں کے نصیحت آموز واقعات کو ملت اسلامیہ کے نوجوانوں ،بچوں ،بوڑھوں ،خاص و عام اور ہر شعبۂ زندگی کے انسانوں کے لیے قابل استفادہ،قابل نصیحت،قابل درس بناکر چھوڑا۔ اس باب میں وہ اپنی ذات میں اک انجمن کے صحیح مصداق تھے:اللہم اغفرہ وارحم وارفع درجتہ فی جنۃ النعیم ’’حکیم الاسلامؒ حضرت مولانا محمد طیب صاحبؒ کو اپنے بزرگوں سے جو تعلق خاطر تھا اس کا تذکرہ کرتے ہوئے مولانا انظر شاہ صاحبؒ لکھتے ہیں کہ: ’’انہیں اپنے بزرگوں سے عشق تھا، وعظ ہو کہ تقریر، مجلس ہو کہ مستفیدین کا حلقہ ہر جگہ اکابر کا وقیع تذکرہ فرماتے۔‘‘ ہندوستان کی حدوں کو توڑ کر دارالعلوم کا تعارف، بزرگوں کی معرفت ان کے انہی معمولات کا دل آویز ثمرہ ہے، بہت سے گمنام متعارف ہوگئے، بہت سے نامور جاوید بن گئے۔‘‘ (۴۳) ……v……