حیات طیب رحمہ اللہ تعالی جلد 1 |
یات طیب |
|
سپاس نامہ یہ سپاس نامہ ۲۱؍نومبر ۶۵ء کوحضرت مولانا ابوالسعود صاحب مہتمم مدرسہ دارالعلوم سبیل الرشاد بنگلورنے حضرت حکیم الاسلامؒ کی خدمت میں مدرسہ کی جانب سے پیش کیا۔ الحمد للّٰہ و کفیٰ و سلام علٰی عبادہ الذین اصطفٰی۔ امابعد! اللہ تعالیٰ کا احسان ہے کہ آج دارالعلوم سبیل الرشاد میں ہمارے درمیان عالم اسلامی کی ایک برگزیدہ شخصیت جلوہ افروز ہے، جس کی روحانیت سے ہمارے قلوب سرور واطمینان کی کیفیت محسوس کر رہے ہیں ۔ تعبیر و الفاظ سے قطع نظر ہم اس کرم بے پایاں کی کیفیت محسوس کر رہے ہیں ۔تعبیر و الفاظ سے قطع نظر ہم اس کرم بے پایاں کے لئے حضرت والا کے شکر و سپاس گذار ہیں کہ آپ نے اپنے بیش قیمت لمحات دارالعلوم سبیل الرشاد کے لئے عنایت فرمائے۔ ہمارے مدرسہ میں حضرت والا کی تشریف آوری پہلی مرتبہ نہیں ہے بلکہ حضرت والا کا معمول ہے کہ جب جنوبی ہندمیں آپ کا دورہ ہوتاہے تو دارالعلوم سبیل الرشاد میں تشریف لا کر اپنے قدوم میمنت لزوم سے ہمیں ضرور نوازتے ہیں ۔ الحمد للہ گزشتہ سال ہماری دعوت پر دارالعلوم کی زیر تعمیر درسگاہوں کی عمارت کا سنگ بنیاد حضرت والا نے اپنے دست مبارک سے رکھا۔ بلاشبہ ہمارے پاس الفاظ کا وہ ذخیرہ نہیں ہے جس کی وساطت سے ہم اپنے دل کی گہرائیوں میں پائی جانے والی مسرت و خوشی کا اظہار کرسکیں ۔ جانشین قاسم العلوم والخیرات! حق جل شانہٗ نے آپ کی ذات والا صفات کو یوں تو اپنے فضل عمیم سے بہر نوع نوازا ہے جس کی بنا پر آپ کی شخصیت دور حاضر کے علماء و صلحاء میں مرکزی حیثیت کی حامل ہے لیکن اگر آپ کی ذات میں ودیعت کئے گئے اوصاف حمیدہ کا تذکرہ کیا جائے تو قاسم العلوم والخیرات حجۃ الاسلام حضرت مولانا محمد قاسم نانوتویؒ بانی دارالعلوم دیوبند کی جانشینی ایک ایسا وصف ہے جس کو سرفہرست جگہ دی جائے گی اور اگر الولدُ سرٌّ لابیہ کا مصداق متعین کیا جائے تو ہمیں یہ کہنے میں کوئی تامل نہیں ہے کہ حضرت قاسم العلوم والخیرات کے روحانی و علمی اثاثہ سے حضرت والا کو وراثت آبائی کے طریق حظِ وافر عنایت کیا گیا ہے اور آج دیوبند کی سرزمین علم و فن کی آبیاری، آپ کے بے پایاں خلوص، آپ کی شبانہ روز کی محنت شاقہ اور آپ کے بے کراں علوم قاسمی کی رہین منت ہے۔ اگر حجۃ الاسلام حضرت مولانا محمد قاسم نانوتویؒ کے کارناموں کو اصطلاحی زبان میں بیان کیا جائے تو کہا جاسکتا ہے کہ حضرت موصوف نے اپنی مختصر مگر گراں قدر حیات طیبہ میں جو کارہائے نمایاں انجام دئیے ہیں ان میں تصوف و سلوک، تصنیف و تالیف، خطاب و