حیات طیب رحمہ اللہ تعالی جلد 1 |
یات طیب |
|
متاعِ نور تھی کچھ ایسی سستی کہ جیسے ہو بسی سورج میں بستی اِدھر ظاہر میں بستی بُقعۂ نور اُدھر باطن میں ٹھنڈک اس کے مستور عجب برد و سلاماً کا تھا منظر کہ تھی برق تپاں با آبِ کوثر اسی اضداد کے جھرمٹ میں سارے اٹھا کر کلفتیں بھی خوش تھے سارے بہر صورت ہوا اجلاس ایسا ہوا ہوگا نہ اس دنیا میں ویسا یہ دارالعلوم کی تھی ایک آواز جو معنیً تھی خلیل اللّٰہی آواز عرب ہوں یا عجم، تھے محوِ پرواز عجب تھا والہانہ اُن کا انداز تھے جمع تیس پینتیس لاکھ افراد کہ سب شاداں تھے کوئی تھا نہ ناشاد یہ تھی محبوبیت از بس خداداد جو تیرے حق میں تھی مالک کی اک داد تری ہی مرکزیت سب نے مانی تو ہی تنہا تھا اس وحدت کا بانی ترا اجلاس ربطِ عالمی تھا کہ تو خود ہی ادارہ عالمی تھااسمائِ منتظمین اجلاس اور اُن کی خدمات یہ سب تھے تیرے حق میں غیبی تحفے عطیات خداوندی کے تمغے مگر اس کی عطا کے ہیں وسائل جو اس دنیا میں ہیں وجہ فضائل ہے امرِ حق کہ شکر اُن کا بھی ہے حق کہ جیسے شکر حق واجب ہے اور حق تھے اس اجلاس کے بھی کچھ وسائل کہ اُن سے ہی ہوا یہ نظم کامل ہے ناشکری اگر اُن کا نہ ہو ذکر جنہیں تھیں رات دن اجلاس کی فکر بحکم مجلس شوریٰ تھے اسلمؔ عمید و ناظم اعلیٰ مسلّم کریں اجلاس کا تا نظم محکم سلیقہ سے بپا ہو کارِ پیہم کئے ناظم نے خود ہی منتخب چند معین اپنے جو ہمت تھے وہ چند یہ چیدہ منتخب تھے بارہ افراد ہوا اجلاس جن سے خانہ آباد ظفیر و ازہر و محمود و خورشید نعیم و سالم و بدر اور جاوید وحید و اظہر و قمر و سلیم ہم کہ اینہاں جملہ پیوستہ باہم