حیات طیب رحمہ اللہ تعالی جلد 1 |
یات طیب |
|
یوں کہنا چاہئے کہ حقیقی معنوں میں اگر عبادت ہے تو صرف نماز ہے، دوسری عبادات اور وجوہ سے عبادت بنی ہیں ، اپنی ذات سے عبادت نہیں ۔ نماز اپنی ذات سے عبادت ہے۔ روزہ : اس کا معنی یہ ہے کہ کھانے پینے سے آدمی مستغنی ہوجائے، تو کھانے سے، پینے سے، بیوی سے مستغنی ہونا، یہ اللہ کی صفت ہے۔ اس میں ذلت تھوڑی ہے۔ یہ مشابہت ہے حق تعالیٰ کے ساتھ کہ کھانے سے بھی بری، پینے سے بھی بری، بیوی سے بھی بری، تو یہ اظہارِ ذلت تھوڑا ہی ہے،یہ تو اظہارِعزت ہے، یہ عبادتِ تعمیل حکم کی وجہ سے ہے۔ حکم دیا تعمیل کر تو بن گئی عبادت۔ زکٰوۃ : اپنی ذات سے عبادت نہیں ہے۔ اس کے معنی عطا کرنے کے ہیں کہ فقیروں کو دو، عطا کرنا تو اللہ تعالیٰ کی شان ہے۔ یہ تشبیہ ہے حق تعالیٰ کے ساتھ، اس میں ذلت تھوڑا ہی ہے، یہ تو عین عزت ہے، زکوٰۃ عبادت بنی اس لئے کہ حکم ہے زکوٰۃ دو، تعمیل ارشاد نے اس میں پیدا کردئیے، معنی عبادت کے۔ اس طرح سچ بولنے کو عبادت کہتے ہیں اور وہ عبادت ہے لیکن سچ بولنا اپنی ذات سے عبادت نہیں ، یہ تو اللہ تعالیٰ کی صفت ہے:وَمَنْ اَصْدَقُ مِنَ اللّٰہِ قِیْلاً۔ وَمَنْ اَصْدَقُ مِنَ اللّٰہِ حَدِیْثًا۔ ’’اللہ سے زیادہ کس کا قول سچا۔ اللہ سے زیادہ کس کی بات سچی۔‘‘ تو سچ کہنا اور سچ بولنا حق تعالیٰ کی شان ہے، بندہ اگر سچ بولے گا تو مشابہت پیداکرلے گا، کمالاتِ خداوندی کے ساتھ۔ اس میں ذلت تھوڑا ہی ہے یہ تو عین عزت ہے، پھر بھی وہ عبادت ہے کہ حکم کی تعمیل کیجاتی ہے۔ اللہ کا کہنا ہے، سچ بولو۔ تعمیل کے لئے گردن جھکادی کہ سچ بولوں گا، سچ کو عبادت بنا دیا تعمیل حکم نے۔ اپنی ذات سے عبادت نہیں تھی، ورنہ اللہ کی صفت نہ ہوتی۔ لیکن نماز کی ہر ہیئت اظہارِ ذلت کے لئے ہے، ہر ذکر بھی اپنی ذلت کے اظہار پر مشتمل ہے، اس واسطے نماز اپنی ذات سے عبادت ہے محض تعمیل حکم سے عبادت نہیں ، اس کے اندر خاصیت ہی اظہارِ تذلل کی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ساری کائنات پر فرض کی گئی ہے۔زکوٰۃ، حج اور سچ بولنا فرض نہیں کیا گیا، فرمایا گیا: کُلٌّ قَدْ عَلِمَ صَلٰوتہٗ وَ تَسْبِیْحَہ ہر چیز نے اپنی نماز کو پہچان لیا۔ (۷۶)تبلیغ کے لئے جماعتوں کا طریقہ تبلیغی کام میں اجتماعیت کی تاثیر کا سراغ خود قرآن کریم سے ملتا ہے۔ اِذْ اَرْسَلْنَا اِلَیْھِمُ اثْنَیْنِ فَکَذَّبُوْھُمَا فَعَزَّزْنَا بِثَالِث فَقَالُوْا اِنَّا اِلَیْکُمْ مُرْسَلُوْنَ۔ بانیٔ تبلیغ حضرت مولانا محمد الیاس صاحبؒ نے