حیات طیب رحمہ اللہ تعالی جلد 1 |
یات طیب |
|
لئے وہ بڑے کا گو شت نہیں کھا تی تھیں ،کہتی تھیں اس طرف دل ما ئل نہیں ہو تا ابا جی نے ہمیشہ ان کے احساسات اور جذبات کا خیا ل رکھا اور بلا نا غہ امی جان کے لئے بکری کا گو شت آتا تھا، جن سے تعلق ہو محبت ہو ان کے جذبات واحساسات کی قدر کر نا ہم نے ابا جیؒ سے سیکھا ، انسان کی ہر دل عزیزی کا تعلق دل دہی سے ہے خیر خواہی سے ہے ،ایک مصلح ،امامِ، رہبر ،رہنما کے لئے تو یہ اصول بے حد ضروری ہے ۔ ابا جیؒ کی ذات ہما رے لئے روشنی کا مینا ر تھی ، بچپن سے ہم نے ان کے چہرے پر عزم و استقلا ل کے سا تھ ایک پر نو ر مسکر اہٹ دیکھی ، جس نے ہمیں حوصلہ مند بنا یا ،غیرت نفس کے سا تھ جینا سکھا یا ۔ مزاج کی فر اخی ، کشادگی، نر می اور شفقت کا معیا ر مقر ر کر نے کے لئے ابا جی کی ذات ہما رے لئے ایک مثال ہے اور میرے خیال میں وہ تما م حضرات جن کا ابا جیؒ سے واسطہ یا رابطہ رہا، جنھوں نے ان کے ساتھ کچھ وقت گزارا ہے مجھ سے متفق ہوں گے ۔شیخ سعدی ؒ نے فر مایا ؎ باراں کہ در لطا فتِ طبعش خلا فِ نیست (با رش کہ کس کی فطر ت میں لطافت وسود مندی ہے اس پر کسی کو اختلاف نہیں ہے)خاندانی شرافت اور علمی ماحول خاندانی شرافت ہزاروں صفحات سیاہ کرنے کے بعد بھی یہی کہا جاسکتاہے کہ ہر شبہ سے بالا تر،ہر اختلاف سے ماوراء، ہر بحث سے مستثنیٰ، او رکیوں نہ ہو ہزاروں لاکھوں کو نسبت قاسمیہ نے کھراسونا بنادیا، کیا اس سے اندازہ لگانامشکل ہے کہ خود یہ نسبت اپنے آپ میں کتنی عظیم چیز ہے جو براہ راست حضرت حکیم الاسلام ؒ کو حاصل ہے! حضرت مولانا سید انظر شاہ صاحبؒ تحریر فرماتے ہیں : ’’کس قدر خوش نصیب ہے وہ انسان جسے حسب و نسب کی شرافتیں ، گھر کا پاکیزہ ماحول، شریف الطبع والدین، ظاہر و باطن کی تربیت، علم و تعلم کے لئے یگانۂ روزگار شخصیتیں ملی ہوں ، واقعی اس سے بڑھ کر کوئی سعید اور جس کے حصہ میں یہ سب امتیازات ہوں اس سے بڑھ کر کوئی بخت آور نہیں ۔ حضرت مولانا محمد طیب صاحبؒ کو یہ سب سعادتیں لگے بندھے انداز میں نہیں بلکہ وافر میسر تھیں ، ان کی دادھیال میں حضرت نانوتویؒ کا نام نامی کافی وافی ہے۔ نانیہال دیوبند کی ایک شریف بلکہ اشرف خانوادہ، گھر کا ماحول علمی، تعلیم اور تعلم کا سلسلۂ فخر روزگار شخصیتوں تک پہنچتا ہے، روحانی تربیت کے لئے مجدد وقت سے وابستگی، خود طبعاً شریف، حلم کے پیکر، بزرگانہ ادائوں کا مرقع۔‘‘