حیات طیب رحمہ اللہ تعالی جلد 1 |
یات طیب |
|
مولانا عبد العلیم فاروقی صاحب، رکن شوریٰ دارالعلوم دیوبند: حامداً و مصلیا وسلاماً مخدوم گرامی قدر دامت بر کاتکم السلام علیکم و رحمۃ اللہ و بر کاتہ کل ۱۷؍ جو لا ئی ۸۳ء کو بمبئی پہونچا یہا ں آکر حضرت مو لا نا صدیق احمد صاحب باندوی کے ذریعہ حضرت حکیم الاسلام علیہ الرحمہ کی وفات حسرت آیات کی اطلاع ہو ئی، فانا للہ وانا الیہ راجعون ۔ یہ خبر حضرت والا کے خدام اور متوسلین کے لیے کس درجہ اندوہناک ہے اس کا اندازہ نہیں کیا جاسکتا ہے۔ افسوس عالم اسلام ایک نہایت عظیم المرتبت شخصیت سے محروم ہو گیا علم و تقویٰ کا آفتاب عالمتاب غروب ہوگیا ، ہندوستان کے مسلمان یتیم ہو گئے دار العلوم دیو بند کی عزت و آبرو اٹھ گئی اس عظیم حادثہ کو کن الفاظ سے تعبیر کیا جائے لغت ایسے الفاظ سے قاصر ہے ۔ اللہ پاک حضرت والا پر اپنے خاص انعامات فر ما ئے اور درجات عالیہ بلند فرمائے ، کاش میں اس وقت لکھنؤ میں ہوتا اور کسی طرح آپ تک پہنچ کر شریک غم ہوجاتا لیکن یہ میری بد نصیبی ہے کہ ہزاروں میل دور بمبئی میں ہوں انشاء اللہ بہت جلد دیو بند حاضر ہو کر خدمت والا میں حاضر ہو ں گا ۔ میری طرف سے خانوادہ عامرہ کے ہر ہر فرد کی خدمت میں تعزیت مسنونہ پیش فر مادیں ۔ اللہ پاک ہم سب کو صبر جمیل کی تو فیق نصیب فر ما ئے اور حضرت کے فیوض و برکات عام فر مائے ۔ بمبئی میں مقیم لکھنؤ کے بہت احباب سلام نیاز کے بعد کلمات تعزیت پیش کر تے ہیں ۔ ……v……