حیات طیب رحمہ اللہ تعالی جلد 1 |
یات طیب |
|
سپاس نامہ یہ سپاس نامہ حضرت مولانا صدیق احمد باندویؒ نے مدرسہ عربیہ ہتورا،ضلع باندہ کی طرف سے حکیم الاسلام حضرت مولانا محمد طیب صاحبؒ کی خدمت میں پیش کیا تھا۔ مخدوم محترم ! آج ہم مسلمانانِ باندہ کی بڑی خوش نصیبی ہے کہ سیرتِ پاک کے اس مبارک اجتماع میں ہم اپنے مخدوم و محترم عہد حاضر کے مایۂ ناز عالم، فخر اسلام اور ایشیاء کی سب سے بڑی درسگاہ دارالعلوم دیوبند کے صدر مہتمم کے قدوم میمنت لزوم پر بہ صمیم قلب ہدیۂ تشکر پیش کرنے کی سعادت حاصل کر رہے ہیں ۔ حضرت والا! ہمارے ضلع باندہ کو اکابر دارالعلوم سے ایک روحانی تعلق ہے، اگر ایک طرف اکابر دارالعلوم سلسلۂ ولی اللّٰہی کے درخشاں ستارے تھے تو دوسری طرف ہمارے ضلع باندہ کے والی نواب ذوالفقار الدولہ بہادر خاندان ولی اللّٰہی کے آبدار موتی اور حضرت شاہ اسحاق صاحب مہاجر مکیؒ سے فیض یافتگان میں سے تھے، جس طرح اکابر دارالعلوم دیوبند نے ملک کے اندر علم دین اور آزادی وطن کا علم بلند کیا اسی طرح یہ صفات ہمارے نواب صاحب کی ذات میں نمایاں نظر آتی ہیں ۔ ۱۸۵۷ء سے قبل یہ شہر علم کی آماج گاہ بنا ہوا تھا۔ نواب صاحب کے مدرسہ میں حضرت مولانا قاری عبدالرحمن صاحب محدث پانی پتی، جامع علوم عقلیہ و نقلیہ مولانا عبدالحلیم صاحب فرنگی محلی لکھنوی، فقیہ ہند حضرت مولانا خرم علی صاحب بلہوری مترجم درمختار رحمہم اللہ جیسے اکابر علماء و فضلاء درس دیتے تھے اور صدہا تشنگانِ علوم اس چشمہ سے سیراب ہوتے تھے۔ باندہ میں خاندان سادات کے قیام کے باعث نواب صاحب ہی تھے۔ آخرکار ۱۸۵۷ء کا انقلابی اور نہ بھولنے والا دور آیا۔ ہمارے نواب صاحب نے بھی اکابر دارالعلوم کی طرح دین و ملت کے تحفظ اور تحصیل آزادی کے لئے بے مثال قربانیاں پیش کیں ، لیکن حالات نے موافقت نہ کی اور انہیں سلطنت کو خیرباد کہہ کر یہاں سے اندور چلا جانا پڑا مگر ہمارے لئے جامع مسجد اور دیگر آثارِ عبرت چھوڑ گئے جو ہم کو برابر درس دے رہے ہیں ۔ کاش ہم اہل باندہ کی آواز سن لیں اور اپنے مشفق و مہربان والی کی یاد تازہ کریں ۔ خدا کرے ہمارے دن پھریں اورہمارا شہر پھر سے اپنی کھوئی ہوئی علمی مرکزیت حاصل کرلے، ہمارے یہاں پھر علماء ربانی کا مجمع ہو اور ہم اپنے والی کی طرح دین کے واسطے جان و مال کی بازی لگائیں ۔ مصلح ملت! آپ کی تشریف آوری ہم فالِ نیک تصور کرتے ہیں ، ہم اس وقت اپنی خوش طالعی پربجا طور پر ناز کر رہے ہیں کہ اللہ پاک نے ہمارے ٹوٹے ہوئے رشتہ کو پھر ایک لڑی میں ملا دیا اور ہم کو پھر اپنے