حیات طیب رحمہ اللہ تعالی جلد 1 |
یات طیب |
|
مو لا نا عبد العلی فا روقی ایڈیٹر ’’البدر‘‘ صد ر المدرسین دار العلوم فارو قیہ کا کوری لکھنؤ : ذو المجد و الکرم حضرت استاذ محترم مد ظلکم العالی السلام علیکم و رحمۃ اللہ و بر کا تہ بستر علالت پر حضرت اقدس مہتمم صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے حادثۂ وفات کی اطلاع ملی ، دل اس خبر کو سننے کے لیے قطعی آمادہ نہ تھا اور اب تو یک گونہ ڈھارس بند ھ گئی تھی کیونکہ حضرت والد ماجد مد ظلہ بمبئی سے یہ اطلاع لا ئے تھے کہ اب حضرت کے مزاج سامی پر سکون ہیں ا ور صحت اس درجہ اطمینان بخش ہو چکی ہے کہ حضرت کا جلد ہی بمبئی کا سفر ہونے والا ہے ، جب اخبارات کے ذریعہ حضرت ؒ کی تشویشناک علالت کی اطلاع ملی تھی دل پکڑ اسا رہتا تھا اور ہر وقت ایک اندیشہ لگا رہتا تھا مگر والد ماجد مد ظلہ سے یہ تسلی بخش حالت سن کر دل کو کچھ اطمینان ہو گیا تھا کہ اچانک یہ اندوہناک خبر سننے کو ملی کہ حضرت مہتمم صاحب ؒ کی ضیا بار شخصیت سے ہم سب لوگ محروم ہو گئے ۔ انا للہ وانا الیہ راجعون مجھ جیسے نا کا رہ کی کیا بساط کہ اس حادثۂ عظمی پر حضرت والا کی خدمت میں تعزیت پیش کر سکے لیکن ادائیگی نیت کے جذبہ کے ساتھ یہ عریضہ ارسال خدمت ہے حق تعالیٰ حضرتؒ کے ا سوۂ حسنہ پر ہم سیاہ کاروں کو بھی چلنے کی تو فیق ارزانی فر ما ئے۔ (آمین) یوں تو دنیا میں جو آیا ہے اسے ایک نہ ایک دن جا نا ہے مگر قلق اور افسوس اس بات کا ہے کہ حضرت مہتمم صاحبؒ اس حال میں دنیا سے رخصت ہو ئے کہ انجام آخرت سے لاپرواہ مفاد پرستوں نے ان کا کلیجہ چھلنی کر دیا تھا ، آپ حضرات کو اس کا جس قدربھی ملال ہو کم ہے ، ویسے یہ تو یقین ہے کہ انشاء اللہ یہ کلفتیں ان کے لیے ذخیرۂ آخرت ثابت ہو ں گی ، اس سلسلہ میں اپنے دلی جذبات کا قلم بر داشتہ اظہار ’’البدر‘‘ کے تازہ شمارہ میں کیا ہے اگرچہ مسلسل علالت کی وجہ سے بہت زیادہ تفصیل کے ساتھ نہیں لکھ سکا ، یہ شمارہ حسب معمول طبع ہو نے کے بعد انشاء اللہ خدمت والا میں بھی بھیجا جائے گا ۔ دل تو یہ چاہتا تھا کہ اس غم آگیں مو قع پر حاضر خدمت ہو کر کفش بر داری کی سعادت حاصل کر تا شاید